نیز اﷲتعالیٰ کا فرمان ہے۔
لقد رضي الله عن المؤمنين إذ يبايعونك تحت الشجرة (پ26۔الفتح۔48:18)
البتہ تحقیق سے اﷲ تعالیٰ راضی ہو چکا ہے ان مومنوں سے جنہوں نے اس درخت کے نيچے تجھ سے بیعت کی۔
اس آیت کریمہ میں اﷲ تعالیٰ نے ماضی (رضی) پر دو تاکیدیں(لام اورقد) داخل فرما کر ان حضرات صحابہ کرام ؓ کو تحقیقی اور قطعی طور پر مومن کہا ہے جنہوں نے آنحضرت ﷺ کے دست مبارک پر حدیبیہ کے مقام پر درخت (کےکر) کے نيچے بیعت کی تھی جن کی تعداد پندرہ (1500)سو تھی-(بخاری ج2ص598 اور تفسیر ابن کثیرج4ص185 میں چودہ سو ہے)جن میں مہاجرین بھی تھے اور انصار بھی تھے اور ان میں حضرت ابو بکرؓ عمرؓ اور علیؓ بھی شامل تھے عثمان ؓ کو آپ نے سفیر بنا کر بھیجاتھا اور ان کو قید کر لیا گیا(وھو الصحیح راجع تفسیر ابن کثیر ج4ص186لا قصة شہادتة فان فی السند ابن اسحق۔ابن کثیر)مگر بایں ہمہ آنحضرت ﷺ نے اپنا دایاں ہاتھ مبارک حضرت عثمانؓ کا ہاتھ قرار دے کر ان کی طرف سے خود بیعت کی تھی(بخاری ج1ص523) اب اگر کوئی شخص اس بیعت الرضوان میں شریک ہونے والوں میں سے کسی ایک کو بھی کافر کہتا ہے تو وہ خود کافر ہوگا۔ کیونکہ ان ، حضرات کا مومن ہونا تو یقینی طور پر نص قطعی سے ثابت ہے اور حضرت ابوبکر کا صحابی ہونا تو قرآن کریم کی اس نص قطعی اذ یقول لصاحبہ الایة سے بھی ثابت ہے اور حضرت عائشہ ؓ کی برات کے بارے میں قرآن کریم میں دو رکوع موجود ہیں لہٰذا جو شخص حضرت ابوبکر ؓ کے صحابی ہونے کا منکر ہو یا حضرت ام المومنین عائشہؓ پر معاذ اﷲ تعالیٰ قذف کرتا ہو تو وہ یقینا کافر ہے۔علامہ ابن عابدین الشامیؒ (المتوفی1250ھ فرماتے ہیں کہ )
لا شک فی تکفیر من قذف السیدة عائشہ ؓ او انکر صحبة الصدیقؓ الخ
جس شخص نے حضرت عائشہؓ پر قذف کی یا حضرت ابوبکرؓ صدیق کے صحابی ہونے کا منکر ہو تو ا س کے کفر میں کوئی شک نہیں ہے (شامی ج4 ص294 طبع1288ھ)
لقد رضي الله عن المؤمنين إذ يبايعونك تحت الشجرة (پ26۔الفتح۔48:18)
البتہ تحقیق سے اﷲ تعالیٰ راضی ہو چکا ہے ان مومنوں سے جنہوں نے اس درخت کے نيچے تجھ سے بیعت کی۔
اس آیت کریمہ میں اﷲ تعالیٰ نے ماضی (رضی) پر دو تاکیدیں(لام اورقد) داخل فرما کر ان حضرات صحابہ کرام ؓ کو تحقیقی اور قطعی طور پر مومن کہا ہے جنہوں نے آنحضرت ﷺ کے دست مبارک پر حدیبیہ کے مقام پر درخت (کےکر) کے نيچے بیعت کی تھی جن کی تعداد پندرہ (1500)سو تھی-(بخاری ج2ص598 اور تفسیر ابن کثیرج4ص185 میں چودہ سو ہے)جن میں مہاجرین بھی تھے اور انصار بھی تھے اور ان میں حضرت ابو بکرؓ عمرؓ اور علیؓ بھی شامل تھے عثمان ؓ کو آپ نے سفیر بنا کر بھیجاتھا اور ان کو قید کر لیا گیا(وھو الصحیح راجع تفسیر ابن کثیر ج4ص186لا قصة شہادتة فان فی السند ابن اسحق۔ابن کثیر)مگر بایں ہمہ آنحضرت ﷺ نے اپنا دایاں ہاتھ مبارک حضرت عثمانؓ کا ہاتھ قرار دے کر ان کی طرف سے خود بیعت کی تھی(بخاری ج1ص523) اب اگر کوئی شخص اس بیعت الرضوان میں شریک ہونے والوں میں سے کسی ایک کو بھی کافر کہتا ہے تو وہ خود کافر ہوگا۔ کیونکہ ان ، حضرات کا مومن ہونا تو یقینی طور پر نص قطعی سے ثابت ہے اور حضرت ابوبکر کا صحابی ہونا تو قرآن کریم کی اس نص قطعی اذ یقول لصاحبہ الایة سے بھی ثابت ہے اور حضرت عائشہ ؓ کی برات کے بارے میں قرآن کریم میں دو رکوع موجود ہیں لہٰذا جو شخص حضرت ابوبکر ؓ کے صحابی ہونے کا منکر ہو یا حضرت ام المومنین عائشہؓ پر معاذ اﷲ تعالیٰ قذف کرتا ہو تو وہ یقینا کافر ہے۔علامہ ابن عابدین الشامیؒ (المتوفی1250ھ فرماتے ہیں کہ )
لا شک فی تکفیر من قذف السیدة عائشہ ؓ او انکر صحبة الصدیقؓ الخ
جس شخص نے حضرت عائشہؓ پر قذف کی یا حضرت ابوبکرؓ صدیق کے صحابی ہونے کا منکر ہو تو ا س کے کفر میں کوئی شک نہیں ہے (شامی ج4 ص294 طبع1288ھ)
No comments:
Post a Comment