Sunday, 30 October 2011
Friday, 28 October 2011
تبلیغی جماعت پر اعتراضات اور ان کا جواب
سوال
1 فضائل اعمال کی جگہ قرآن پاک ، صحیح بخاری اور صحیح مسلم کا درس کیوں نہیں دیا جاتا جو کہ صحیح ترین کتب ہیں ؟
2 کل وقتی کارکنان امراءاور بیرون کے لیئے وفود کا خرچہ کہاں سے آ تا ہے۔ نیز اجتماع کا خرچہ کہاں سے آتا ہے۔حالانکہ تبلیغی جماعت کوئی چندہ اکٹھا نہیں کرتی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تقریباً ہر جنگ سے پہلے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ سے مالی اعانت لی ؟
3 تبلیغی جماعت کے ساتھ کتنا وقت لگانے سے ایک مسلمان قرآن اور حدیث سمجھنے کے قابل ہو جاتا ہے ؟
4 مضبوطی ایمان کے لیے کتنا عرصہ درکار ہے؟
5 عربوں کو ریاض الصالحین اور عجمیوں (پاکستانی ،ہندوستانی وغیرہ)کو فضائل( فضائل اعمال،صدقات،حج،درود ۔۔) کی کتابیں کیوں پڑھائی جاتی ہیں؟
6 فضائل اعمال کا عربی ترجمہ کیوں نہیں ہوا؟
7 کیا تبلیغی جماعت دیوبندیوں میں بھی ایک فرقہ ہے؟
8 ترجمة القرآن سیکھنے اور سکھانے سے کیوں روکا جاتاہے؟
9 تبلیغی جماعت کا دعوی ہے کہ سب ٹھیک ہے تو تہتر میں سے کون سا فرقہ جنت میں جائے گا؟
10 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد کے لئے جماعتیں روانہ کیں کیا تبلیغی جماعت نے کبھی اس سنت پر عمل کیا یا ان کا ابھی مکی دور ہی مکمل نہیں ہوا ؟
11 تبلیغی جماعت کے ارکان جہاد سے کیوں جی چراتے ہیں؟ حالانکہ ان کی تعداد لاکھوں میں ہے ۔کشمیری ، فلسطینی ،عراقی ،افغانی مائیں بہنیں مدد کے لئے پکار رہی ہیں۔مسلمانوں کی عزت و ناموس لٹ رہی ہے اور یہ حضرات لوٹا،بستر اٹھائے تبلیغی مشن پرکیوں روانہ ہوتے ہیں حالانکہ یہ وقت ہتھیار اٹھانے کا ہے؟مسلمان مجاہد جہاں جاتا تھا وہاں اسلام کی تبلیغ کا کام بھی کرتا تھا۔تبلیغ کا یہ طریقہ کیوں نہیں اپنایا جاتا؟ جہاد فرض ہے چاہے ناگوار گذرے “
کتب علیکم القتال وھوکرہ لکم وعسی ان تکرھوا شیئا وھو خیر لکم وعسی ان تحبوا شیا وھو شر لکم وااللہ یعلم وانتم لا تعلمون (سورہ البقرہ 2 / 216)ترجمہ:۔ تم پر قتال فرض کیا گیا ہے حالانکہ وہ تمہیں ناگوار گذرتا ہے۔ہو سکتا ہے کہ ایک چیز کو تم ناگوار سمجھو اور وہی تمہارے لئے بہتر ہو اور ہو سکتا ہے ایک چیز تمہیں پسند ہو اور وہی تمہارے لئے بری ہو۔اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔
جزاک اللہ
جواب
صور ت مسئولہ میں فضائل اعمال حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب کی تالیف ہے یہ کتاب اردوزبان میں لکھی گئی ہےاس کتاب کے لکھنے کا مقصود یہ ہے کہ اعمال کے فضائل اور گناہ کے ارتکاب پر وعیدیں بیان کئے جائیں تاکہ لوگوں کے ذہن میں اعمال کی اہمیت اور گناہوں سےبچنے کا شعور پیدا ہو کہ لوگ اعمال کرنے لگ جائیں اورگناہوں سے اجتناب کرنے لگ جائیں ۔ اس کتاب کا مقصد احکام اور مسائل کو بیان کرنا نہیں ہے اس لیے کہ اس کتاب میں احکام ،مسائل کے بارے میں کچھ نہیں لکھا گیا ۔
جماعت دعوت تبلیغ کا مقصود چونکہ لوگوں کو اعمال پر لگانا اور گناہوں سے بچانے کی کوشش کرنا ہے ،احکام و مسائل بتا نا نہیں اس لیے وہ اپنےتعلیمی حلقوں میں اسی کتاب کو سامعین کے سامنے بیان کرتے ہیں۔رہاقرآن کریم ،صحیح بخاری اور صحیح مسلم کا درس تو چونکہ ان کتابوں میں احکام ومسائل بیان کیے گئے ہیں اور اس کے درس کے لیے علم کی ضرورت ہے یہ ہر تبلیغی کارکن کے پاس نہیں اور نہ ہی جماعت تبلیغ کا مقصود احکام کا بیان ہے بلکہ فضائل سن کر احکام سیکھنے کے لیے علماء کرام کی طرف رجوع کا مشورہ دیتے ہیں اس لیے اپنی مجلسوں میں ان کتابوں کادرس نہیں دیتے۔
دوم یہ کہ فضائل اعمال نامی کتاب میں جوفضائل بیان ہوئےہیں وہ قرآن کریم کی آیتوں اور احادیث رسول جو مختلف کتابوں مثلاً بخاری ،مسلم،ابوداؤد وغیرہ میں موجود ہیں ،ان سے لیے گئے ہیں تو یہ قرآن اور حدیث سے ہٹ کر تو نہیں۔
۔بیرونی یا اندرونی جماعتیں جو تبلیغ دین کا کام کرتی ہیں یہ جماعتیں اپنے خرچے اور اپنے وسائل پرچلتی ہیں کسی سے تعاون نہیں یہی معاملہ اجتماع کا ہے ۔ مسلمان باہمی تعاون سے اس نظام کو سنبھالتے ہیں اور اس کے اخراجات اٹھاتے ہیں۔
۔جیسے پہلے بتایا گیا ہے کہ اس جماعت کا مقصد ثواب کے کاموں کی ترغیب اور گناہ کے کاموں سےبچنے کی تلقین ہے ،درس وتدریس ،تعلیم تعلم نہیں ،اس لیے یہ سوال بے محل ہے ،ہاں اس جماعت کے ساتھ جڑجانے سے علم دین کے حصول کا جذبہ اس میں پیدا ہوتاہے ،اہلِ علم سے تعلق پیدا ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے دین کے بارے میں کافی حد تک معلومات ہوجاتی ہیں باقی قرآن و حدیث کا سمجھنا انسان کے اپنے فہم و فراست پر مبنی ہے اگر انسان علم دین کے حصول میں لگ جائے ،صاحبِ فہم و فراست ہو اور اللہ تعالیٰ کی مشیت ہو تو وہ بہت جلد قرآن و حدیث کو سمجھنے لگ جاتا ہے اس کے لیے کوئی وقت یا زمانہ متعین نہیں ۔
۔اس کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں ۔
۔"فضائل اعمال"چونکہ اردوزبان جاننے والوں کے لیے لکھی گئی ہے اس میں احادیث کا ترجمہ لکھا گیاہے جبکہ "ریاض الصالحین"عربی زبان میں سے ہے اور اہلِ عرب عربی زبان کو آسانی سے سمجھتے ہیں اور دونوں کتابوں میں اعمال کے فضائل اور معاصی کے ارتکاب پر وعیدوں کا تذکرہ ہے ،اس لیے اہلِ عرب کو "ریاض الصالحین "اور اہل عجم کو" فضائل اعمال" سے تعلیم دی جاتی ہے۔
۔یہ تو امت کی ذمہ داری ہے کہ وہ کرے کوئی کرنا چاہے تو کسی کی طرف سے پابندی نہیں۔
۔ "تبلیغی جماعت"یا دیوبند مکتبہ ٔ فکر کوئی فرقہ نہیں ہے ،اہل سنت والجماعت ہے جو کہ اہل حق کی جماعت ہے ،دین کی تبلیغ وترویج اپنی ذمہ داری سمجھتےہیں اسی پر عمل پیرا ہیں ۔
۔آج تک انہوں نے نہ قرآن کریم کے سیکھنےسے روکا ہے اور نہ ہی اس کے ترجمہ وتفسیر سے بلکہ جماعت دعوت و تبلیغ میں جڑنے سے قرآن کریم کے سیکھنے کا شوق پیدا ہوجاتا ہے ۔علم دین کے احکا م و مسائل سے تعلق پیدا ہوجاتا ہے ،پھرقرآن کریم ،احادیث اورت احکام و مسائل سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
۔ کبھی بھی یہ نہیں کہا کہ سب ٹھیک ہے ،اگر یہ کہتے تو پھر دعوت و تبلیغ کا کام کیوں کرتے ،لوگوں کو برائیوں سے نکا ل کر خیرو بھلائی کی طرف کیوں لاتے ، ہاں دین کی طرف راغب کرنے میں وہ اپنی حکمت عملی کے تحت میانہ روی اختیار کرتے رہتے ہیں ۔
۔اس جماعت نے کسی کو منع نہیں کیا ہے اور نہ ہی ان کا یہ نظریہ ہے ۔کتنے افراد ایسے ہوں گے جو جہاد کے شعبے سے وابستہ ہوں گے ۔
دوم یہ کہ دین کے کئی شعبے ہیں تدریس ،تبلیغ ،جہاد وغیرہ ہرشعبہ اپنی جگہ صحیح ہے ۔ہر شعبہ کا اپنا کام ہوتاہے ،نہ تمام افراد تدریس سے وابستہ ہوسکتے ہیں اور نہ ہی دعوت و تبلیغ سے اور نہ ہی جہاد سے لہٰذا یہ کہنا کہ جماعت دعوت و تبلیغ نے کوئی جماعت جہاد کے لیے روانہ نہیں کی ایک غیر معقول بات ہے۔
1 فضائل اعمال کی جگہ قرآن پاک ، صحیح بخاری اور صحیح مسلم کا درس کیوں نہیں دیا جاتا جو کہ صحیح ترین کتب ہیں ؟
2 کل وقتی کارکنان امراءاور بیرون کے لیئے وفود کا خرچہ کہاں سے آ تا ہے۔ نیز اجتماع کا خرچہ کہاں سے آتا ہے۔حالانکہ تبلیغی جماعت کوئی چندہ اکٹھا نہیں کرتی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تقریباً ہر جنگ سے پہلے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ سے مالی اعانت لی ؟
3 تبلیغی جماعت کے ساتھ کتنا وقت لگانے سے ایک مسلمان قرآن اور حدیث سمجھنے کے قابل ہو جاتا ہے ؟
4 مضبوطی ایمان کے لیے کتنا عرصہ درکار ہے؟
5 عربوں کو ریاض الصالحین اور عجمیوں (پاکستانی ،ہندوستانی وغیرہ)کو فضائل( فضائل اعمال،صدقات،حج،درود ۔۔) کی کتابیں کیوں پڑھائی جاتی ہیں؟
6 فضائل اعمال کا عربی ترجمہ کیوں نہیں ہوا؟
7 کیا تبلیغی جماعت دیوبندیوں میں بھی ایک فرقہ ہے؟
8 ترجمة القرآن سیکھنے اور سکھانے سے کیوں روکا جاتاہے؟
9 تبلیغی جماعت کا دعوی ہے کہ سب ٹھیک ہے تو تہتر میں سے کون سا فرقہ جنت میں جائے گا؟
10 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد کے لئے جماعتیں روانہ کیں کیا تبلیغی جماعت نے کبھی اس سنت پر عمل کیا یا ان کا ابھی مکی دور ہی مکمل نہیں ہوا ؟
11 تبلیغی جماعت کے ارکان جہاد سے کیوں جی چراتے ہیں؟ حالانکہ ان کی تعداد لاکھوں میں ہے ۔کشمیری ، فلسطینی ،عراقی ،افغانی مائیں بہنیں مدد کے لئے پکار رہی ہیں۔مسلمانوں کی عزت و ناموس لٹ رہی ہے اور یہ حضرات لوٹا،بستر اٹھائے تبلیغی مشن پرکیوں روانہ ہوتے ہیں حالانکہ یہ وقت ہتھیار اٹھانے کا ہے؟مسلمان مجاہد جہاں جاتا تھا وہاں اسلام کی تبلیغ کا کام بھی کرتا تھا۔تبلیغ کا یہ طریقہ کیوں نہیں اپنایا جاتا؟ جہاد فرض ہے چاہے ناگوار گذرے “
کتب علیکم القتال وھوکرہ لکم وعسی ان تکرھوا شیئا وھو خیر لکم وعسی ان تحبوا شیا وھو شر لکم وااللہ یعلم وانتم لا تعلمون (سورہ البقرہ 2 / 216)ترجمہ:۔ تم پر قتال فرض کیا گیا ہے حالانکہ وہ تمہیں ناگوار گذرتا ہے۔ہو سکتا ہے کہ ایک چیز کو تم ناگوار سمجھو اور وہی تمہارے لئے بہتر ہو اور ہو سکتا ہے ایک چیز تمہیں پسند ہو اور وہی تمہارے لئے بری ہو۔اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔
جزاک اللہ
جواب
صور ت مسئولہ میں فضائل اعمال حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب کی تالیف ہے یہ کتاب اردوزبان میں لکھی گئی ہےاس کتاب کے لکھنے کا مقصود یہ ہے کہ اعمال کے فضائل اور گناہ کے ارتکاب پر وعیدیں بیان کئے جائیں تاکہ لوگوں کے ذہن میں اعمال کی اہمیت اور گناہوں سےبچنے کا شعور پیدا ہو کہ لوگ اعمال کرنے لگ جائیں اورگناہوں سے اجتناب کرنے لگ جائیں ۔ اس کتاب کا مقصد احکام اور مسائل کو بیان کرنا نہیں ہے اس لیے کہ اس کتاب میں احکام ،مسائل کے بارے میں کچھ نہیں لکھا گیا ۔
جماعت دعوت تبلیغ کا مقصود چونکہ لوگوں کو اعمال پر لگانا اور گناہوں سے بچانے کی کوشش کرنا ہے ،احکام و مسائل بتا نا نہیں اس لیے وہ اپنےتعلیمی حلقوں میں اسی کتاب کو سامعین کے سامنے بیان کرتے ہیں۔رہاقرآن کریم ،صحیح بخاری اور صحیح مسلم کا درس تو چونکہ ان کتابوں میں احکام ومسائل بیان کیے گئے ہیں اور اس کے درس کے لیے علم کی ضرورت ہے یہ ہر تبلیغی کارکن کے پاس نہیں اور نہ ہی جماعت تبلیغ کا مقصود احکام کا بیان ہے بلکہ فضائل سن کر احکام سیکھنے کے لیے علماء کرام کی طرف رجوع کا مشورہ دیتے ہیں اس لیے اپنی مجلسوں میں ان کتابوں کادرس نہیں دیتے۔
دوم یہ کہ فضائل اعمال نامی کتاب میں جوفضائل بیان ہوئےہیں وہ قرآن کریم کی آیتوں اور احادیث رسول جو مختلف کتابوں مثلاً بخاری ،مسلم،ابوداؤد وغیرہ میں موجود ہیں ،ان سے لیے گئے ہیں تو یہ قرآن اور حدیث سے ہٹ کر تو نہیں۔
۔بیرونی یا اندرونی جماعتیں جو تبلیغ دین کا کام کرتی ہیں یہ جماعتیں اپنے خرچے اور اپنے وسائل پرچلتی ہیں کسی سے تعاون نہیں یہی معاملہ اجتماع کا ہے ۔ مسلمان باہمی تعاون سے اس نظام کو سنبھالتے ہیں اور اس کے اخراجات اٹھاتے ہیں۔
۔جیسے پہلے بتایا گیا ہے کہ اس جماعت کا مقصد ثواب کے کاموں کی ترغیب اور گناہ کے کاموں سےبچنے کی تلقین ہے ،درس وتدریس ،تعلیم تعلم نہیں ،اس لیے یہ سوال بے محل ہے ،ہاں اس جماعت کے ساتھ جڑجانے سے علم دین کے حصول کا جذبہ اس میں پیدا ہوتاہے ،اہلِ علم سے تعلق پیدا ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے دین کے بارے میں کافی حد تک معلومات ہوجاتی ہیں باقی قرآن و حدیث کا سمجھنا انسان کے اپنے فہم و فراست پر مبنی ہے اگر انسان علم دین کے حصول میں لگ جائے ،صاحبِ فہم و فراست ہو اور اللہ تعالیٰ کی مشیت ہو تو وہ بہت جلد قرآن و حدیث کو سمجھنے لگ جاتا ہے اس کے لیے کوئی وقت یا زمانہ متعین نہیں ۔
۔اس کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں ۔
۔"فضائل اعمال"چونکہ اردوزبان جاننے والوں کے لیے لکھی گئی ہے اس میں احادیث کا ترجمہ لکھا گیاہے جبکہ "ریاض الصالحین"عربی زبان میں سے ہے اور اہلِ عرب عربی زبان کو آسانی سے سمجھتے ہیں اور دونوں کتابوں میں اعمال کے فضائل اور معاصی کے ارتکاب پر وعیدوں کا تذکرہ ہے ،اس لیے اہلِ عرب کو "ریاض الصالحین "اور اہل عجم کو" فضائل اعمال" سے تعلیم دی جاتی ہے۔
۔یہ تو امت کی ذمہ داری ہے کہ وہ کرے کوئی کرنا چاہے تو کسی کی طرف سے پابندی نہیں۔
۔ "تبلیغی جماعت"یا دیوبند مکتبہ ٔ فکر کوئی فرقہ نہیں ہے ،اہل سنت والجماعت ہے جو کہ اہل حق کی جماعت ہے ،دین کی تبلیغ وترویج اپنی ذمہ داری سمجھتےہیں اسی پر عمل پیرا ہیں ۔
۔آج تک انہوں نے نہ قرآن کریم کے سیکھنےسے روکا ہے اور نہ ہی اس کے ترجمہ وتفسیر سے بلکہ جماعت دعوت و تبلیغ میں جڑنے سے قرآن کریم کے سیکھنے کا شوق پیدا ہوجاتا ہے ۔علم دین کے احکا م و مسائل سے تعلق پیدا ہوجاتا ہے ،پھرقرآن کریم ،احادیث اورت احکام و مسائل سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
۔ کبھی بھی یہ نہیں کہا کہ سب ٹھیک ہے ،اگر یہ کہتے تو پھر دعوت و تبلیغ کا کام کیوں کرتے ،لوگوں کو برائیوں سے نکا ل کر خیرو بھلائی کی طرف کیوں لاتے ، ہاں دین کی طرف راغب کرنے میں وہ اپنی حکمت عملی کے تحت میانہ روی اختیار کرتے رہتے ہیں ۔
۔اس جماعت نے کسی کو منع نہیں کیا ہے اور نہ ہی ان کا یہ نظریہ ہے ۔کتنے افراد ایسے ہوں گے جو جہاد کے شعبے سے وابستہ ہوں گے ۔
دوم یہ کہ دین کے کئی شعبے ہیں تدریس ،تبلیغ ،جہاد وغیرہ ہرشعبہ اپنی جگہ صحیح ہے ۔ہر شعبہ کا اپنا کام ہوتاہے ،نہ تمام افراد تدریس سے وابستہ ہوسکتے ہیں اور نہ ہی دعوت و تبلیغ سے اور نہ ہی جہاد سے لہٰذا یہ کہنا کہ جماعت دعوت و تبلیغ نے کوئی جماعت جہاد کے لیے روانہ نہیں کی ایک غیر معقول بات ہے۔
Thursday, 20 October 2011
جنازه کے ضروری مسائل کا سیکهنا ہرمسلمان کے لیئے ضروری ہے
نماز جنازہ پڑهنے کا عظیم ثواب
حضرت ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا : کہ جوشخص جنازہ ميں نماز جنازہ كى ادائيگى تک شريک رہتا ہے تو اسے ايک قيراط اور جو اسےدفن كرنے تک رہتا ہے اسے دو قيراط ملتے ہيں، صحابہ كرام نے عرض كيا : دو قيراط ك...يا ہيں ؟؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
دو بڑے اور عظيم پہاڑوں كى طرح
--------------------------
نمازجنازه کے ارکان
احناف کے نزدیک نمازجنازه کے چار ارکان ہیں ،
1 = پہلی تکبیر کے بعد ثناء پڑهنا
2 = دوسری تکبیرکے بعد نبي صلى الله عليه وسلم پردرود پڑهنا
3 = تیسری تکبیرکے بعد میت کے لیئے دعا کرنا
4 = اور چوتهی تکبیرکے بعد دونوں سلام پهیرنا
--------------------------
ميت كو خوشبو لگانا اور كفن كو دھونى دينا
كفن كو خوشبو لگانا مستحب ہے، چاہے ميت مرد ہو يا عورت سنت نبويہ كى صحيح احاديث سے اس كے ثبوت ملتے ہيں
:
صحيح بخارى اور صحيح مسلم ميں ہے كہ: " نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان عورتوں كو حكم ديا تھا جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى بيٹى كو غسل دے رہى تھيں كہ وہ آخرى غسل ميں كافور يا كافور ميں سے كچھ شامل كر ليں "
صحيح بخارى ، صحيح مسلم
--------------------------
حضرت ابن عمر رضي الله عنهما کی روایت ہے فرمایا کہ میں نے رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم سے سنا آپ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئ فوت ہوجائے تو اس کو زیاده دیر نہ روکو اوراس کو جلدی قبرکی طرف لے جاو اور ( پهر دفن کے بعد ) اس کے سر کے جانب سورہ فاتحة پڑهی جائے اوراس کے پاوں کی جانب سـورة البقرة کی آخری آیات ( یعنی آمن الرسول سے آخرتک ) پڑهی جائے ،
اس حدیث کو طبراني اوربيهقي نے روایت کیا ہے اورحافظ ابن حجر نے اپنی کتاب فتحُ الباری شرح بخاری میں اس حدیث کی سند کو حسن قرار دیا ہے
--------------------------
فقہ حنفی کی مشہور فتاوی کی کتاب " الفتاوى الهندية " میں ہے کہ یہ مستحب ہے کہ میت کے دفن کرنے کے بعد اتنا وقت وہاں بیٹهے رہیں جتنا وقت مثلا اونٹ کے ذبح کرنے اوراس کا گوشت تقسیم کرنے پرلگتا ہے ، وہاں قرآن کی تلاوت کریں اور میت کے لیئے دعا کریں ،
اور الإمام محمد بن الحسن الشیبانی الحنفی رحمه الله کا بهی یہی قول ہے اورمشايخ الحنفية نے بهی اسی کو اختیارکیا ہے ، اور مالکیہ کے نزدیک بهی یہ مستحب ہے اور شوافع کے نزدیک بهی یہ مستحب ہے اور امام نووی نے اس پر اپنے اصحاب کا اتفاق نقل کیا ہے اور حتی کہ یہ تصریح بهی کی ہے کہ اگروہاں پورا قرآن ختم کرلیں تو زیاده اچها ہے
انبیاء علیہم السلام کا ذکر اور ان کے فضائل
مختصر صحیح مسلم
انبیاء علیہم السلام کا ذکر اور ان کے فضائل
باب : سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا قصہ ، خضر علیہ السلام کے ساتھ۔
1611 : سیدنا سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا کہ نوف بکالی کہتا ہے کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام جو بنی اسرائیل کے پیغمبر تھے، وہ اور ہیں اور جو موسیٰ خضر علیہ السلام کے پاس گئے تھے وہ اور ہیں انہوں نے کہا کہ اللہ کا دشمن جھوٹ بولتا ہے۔ میں نے سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم بنی اسرائیل پر خطبہ پڑھنے کو کھڑے ہوئے، ان سے پوچھا گیا کہ سب لوگوں میں زیادہ علم کس کو ہے؟ انہوں نے کہا کہ مجھ کو ہے ( یہ بات اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہوئی ) پس اللہ تعالیٰ نے ان پر اس وجہ سے ناراضگی کا اظہار کیا کہ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو وحی بھیجی کہ دو دریاؤں کے ملاپ پر میرا ایک بندہ ہے، وہ تجھ سے زیادہ عالم ہے سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا کہ اے پروردگار ! میں اس سے کیسے ملوں؟ حکم ہوا کہ ایک مچھلی زنبیل ( ٹوکرے ) میں رکھ، جہاں وہ مچھلی گم ہو جائے، وہیں وہ بندہ ملے گا۔ یہ سن کر سیدنا موسیٰ علیہ السلام اپنے ساتھی یوشع بن نون علیہ السلام کو ساتھ لے کر چلے اور انہوں نے ایک مچھلی زنبیل میں رکھ لی۔ دونوں چلتے چلتے صخرہ ( ایک مقام ہے ) کے پاس پہنچے تو سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی سو گئے۔ مچھلی تڑپی یہاں تک کہ زنبیل سے نکل کر دریا میں جا پڑی اور اللہ تعالیٰ نے پانی کا بہنا اس پر سے روک دیا، یہاں تک کہ پانی کھڑا ہو کر طاق کی طرح ہو گیا اور مچھلی کے لئے خشک راستہ بن گیا۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی کے لئے تعجب ہوا پھر دونوں چلے دن بھر اور رات بھر اور موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی مچھلی کا حال ان سے کہنا بھول گئے جب صبح ہوئی تو موسیٰ علیہ السلام نے اپنے ساتھی سے کہا کہ ہمارا ناشتہ لاؤ، ہم تو اس سفر سے تھک گئے ہیں اور تھکاوٹ اسی وقت ہوئی جب اس جگہ سے آگے بڑھے جہاں جانے کا حکم ہوا تھا۔ انہوں نے کہا کہ آپ کو معلوم نہیں کہ جب ہم ( مقام ) صخرہ پر اترے تو میں مچھلی بھول گیا اور شیطان نے مجھے بھلایا اور تعجب ہے کہ اس مچھلی نے دریا میں جانے کی راہ لی۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ ہم تو اسی مقام کو ڈھونڈھتے تھے، پھر دونوں اپنے پاؤں کے نشانوں پر لوٹے یہاں تک کہ صخرہ پر پہنچے۔ وہاں ایک شخص کو کپڑا اوڑھے ہوئے دیکھا تو سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے ان کو سلام کیا تو انہوں نے کہا کہ تمہارے ملک میں سلام کہاں سے ہے؟ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ میں موسیٰ ہوں۔ انہوں نے کہا کہ بنی اسرائیل کے موسیٰ؟ سیدنا موسیٰ نے کہا کہ ہاں۔ سیدنا خضر علیہ السلام نے کہا کہ تمہیں اللہ تعالیٰ نے وہ علم دیا ہے جو میں نہیں جانتا۔ اور مجھے وہ علم دیا ہے جو تم نہیں جانتے سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ میں تمہارے ساتھ رہنا چاہتا ہوں اس لئے کہ مجھے وہ علم سکھلاؤ جو تمہیں دیا گیا ہے۔ سیدنا خضر علیہ السلام نے کہا کہ تم میرے ساتھ صبر نہ کر سکو گے اور تم سے اس بات پر کیسے صبر ہو سکے گا جس کو تم نہیں جانتے ہو۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ اگر اللہ نے چاہا تو تم مجھے صابر پاؤ گے اور میں کسی بات میں تمہاری نافرمانی نہیں کروں گا۔ سیدنا خضر علیہ السلام نے کہا کہ اچھا اگر میرے ساتھ ہوتے ہو تو مجھ سے کوئی بات نہ پوچھنا جب تک میں خود اس کا ذکر نہ کروں۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ بہت اچھا۔ پس خضر علیہ السلام اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام دونوں سمندر کے کنارے چلے جاتے تھے کہ ایک کشتی سامنے سے نکلی، دونوں نے کشتی والوں سے کہا کہ ہمیں بٹھا لو، انہوں نے سیدنا خضر علیہ السلام کو پہچان لیا اور دونوں کو بغیر کرایہ چڑھا لیا۔ سیدنا خضر علیہ السلام نے اس کشتی کا ایک تختہ اکھاڑ ڈالا۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ ان لوگوں نے تو ہمیں بغیر کرایہ کے چڑھایا اور تم نے ان کی کشتی کو توڑ ڈالا تاکہ کشتی والوں کو ڈبو دو، یہ تم نے بڑا بھاری کام کیا۔ سیدنا خضر علیہ السلام نے کہا کہ کیا میں نہیں کہتا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہ کر سکو گے؟ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ بھول چوک پر مت پکڑو اور مجھ پر تنگی مت کرو۔ پھر دونوں کشتی سے باہر نکلے اور سمندر کے کنارے چلے جاتے تھے کہ ایک لڑکا ملا جو اور لڑکوں کے ساتھ کھیل رہا تھا، سیدنا خضر علیہ السلام نے اس کا سر پکڑ کر اکھیڑ لیا اور مار ڈالا۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ تم نے ایک بے گناہ کو ناحق مار ڈالا، یہ تو بہت برا کام کیا۔ سیدنا خضر علیہ السلام نے کہا کہ کیا میں نہ کہتا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہ کر سکو گے؟ اور یہ کام پہلے کام سے بھی زیادہ سخت تھا۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ اب میں تم سے کسی بات پر اعتراض کروں تو مجھے اپنے ساتھ نہ رکھنا بیشک تمہارا اعتراض بجا ہوگا۔ پھر دونوں چلے یہاں تک کہ ایک گاؤں میں پہنچے، گاؤں والوں سے کھانا مانگا تو انہوں نے انکار کیا، پھر ایک دیوار ملی جو گرنے کے قریب تھی اور جھک گئی تھی، سیدنا خضر علیہ السلام نے اس کو اپنے ہاتھ سے سیدھا کر دیا۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ ان گاؤں والوں سے ہم نے کھانا مانگا اور انہوں نے انکار کیا اور کھانا نہ کھلایا ( ایسے لوگوں کا کام مفت کرنا کیا ضروری تھا؟ ) اگر تم چاہتے تو اس کی مزدوری لے سکتے تھے۔ سیدنا خضر علیہ السلام نے کہا کہ بس، اب میرے اور تمہارے درمیان جدائی ہے، اب میں تم سے ان باتوں کا مطلب کہے دیتا ہوں جن پر تم سے صبر نہ ہو سکا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ موسیٰ علیہ السلام پر رحم کرے، مجھے آرزو ہے کہ کاش وہ صبر کرتے اور ہمیں ان کی اور باتیں معلوم ہوتیں۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پہلی بات سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے بھولے سے کی۔ پھر ایک چڑیا آئی اور کشتی کے کنارے پر بیٹھی اور اس نے سمندر میں چونچ ڈالی، سیدنا خضر علیہ السلام نے کہا کہ میں نے اور تم نے اللہ تعالیٰ کے علم میں سے اتنا ہی علم سیکھا ہے جتنا اس چڑیا نے سمندر میں سے پانی کم کیا ہے۔ سیدنا سعید بن جبیر نے کہا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ اس طرح پڑھتے تھے کہ (( ان کشتی والوں کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر ثابت کشتی کو ناحق جبر سے چھین لیتا تھا )) اور پڑھتے تھے کہ (( وہ لڑکا کافر تھا ))۔ ( آخری دونوں جملوں سے مراد یہ ہے کہ قرآن پاک کی آیات تو اس طرح نہیں ہیں لیکن سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ گویا بطور تفسیر اس طرح پڑھتے تھے )۔
جنازہ کے مسائل باب
(IMAM HUSSEIN SHRINE)
مختصر صحیح مسلم
Monday, 10 October 2011
Subscribe to:
Posts (Atom)