اسلام کی بنیادی تعلیمات میں ایمان اورنماز و زکوۃ کے بعد روزے کادرجہ ہے۔
قرآن شریف میں فرمایا گیا ہے۔
’’اے ایمان والو! تم پر روزے رکھنا فرض کیاگیا ہے جیسے کہ تم سے پہلی امتوں پربھی فرض کیا گیا تھا تاکہ تم میں تقوی کی صفت پیدا ہو۔‘‘ (سورۃ البقرہ)
اسلام میں پورے مہینے رمضان کے روزے فرض ہیں اور جو شخص بلا کسی عذر اور مجبوری کے رمضان کا ایک روزہ بھی چھوڑ دے تو وہ بہت ہی سخت گناہ گار ہے ۔
ایک حدیث میں ہے:
’’ جوشخص بلا کسی معذوری اور بیماری کے رمضان کا ایک روزہ بھی چھوڑ دے ، وہ اگر اس کے بدلے ساری عمر بھی روزہ رکھے تو اس کا پورا حق ادا نہ ہوسکے گا۔‘‘
روزوں کا ثواب
روزے میں چوں کہ کھانے پینے اور نفسانی شہوت کے پورا کرنے سے اپنے نفس کو عبادت کی نیت سے روکا جاتا ہے اور اللہ تعالی کے واسطے اپنی خواہشوں اور لذتوں کو قربان کیا جاتا ہے ، اس لیے اللہ تعالی نے اس کا ثواب بھی سب سے نرالا اور بہت زیادہ رکھا ہے۔
ایک حدیث میں ہے:
’’بندوں کے سارے نیک اعمال کی جزا کا ایک قانون مقرر ہے اور ہر عمل کا ثواب اسی مقررہ حساب سے دیا جائے گالیکن روزہ اس عام قانون سے مستثنی ہے ۔ اس کے متعلق اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ بندہ روزے میں میرے لئے اپنا کھانا پینا اور اپنے نفس کی شہوت کو قربان کرتا ہے اس لیے روزہ کی جزا بندہ کو میں خود
براہ راست دوں گا۔‘‘قرآن شریف میں فرمایا گیا ہے۔
’’اے ایمان والو! تم پر روزے رکھنا فرض کیاگیا ہے جیسے کہ تم سے پہلی امتوں پربھی فرض کیا گیا تھا تاکہ تم میں تقوی کی صفت پیدا ہو۔‘‘ (سورۃ البقرہ)
اسلام میں پورے مہینے رمضان کے روزے فرض ہیں اور جو شخص بلا کسی عذر اور مجبوری کے رمضان کا ایک روزہ بھی چھوڑ دے تو وہ بہت ہی سخت گناہ گار ہے ۔
ایک حدیث میں ہے:
’’ جوشخص بلا کسی معذوری اور بیماری کے رمضان کا ایک روزہ بھی چھوڑ دے ، وہ اگر اس کے بدلے ساری عمر بھی روزہ رکھے تو اس کا پورا حق ادا نہ ہوسکے گا۔‘‘
روزوں کا ثواب
روزے میں چوں کہ کھانے پینے اور نفسانی شہوت کے پورا کرنے سے اپنے نفس کو عبادت کی نیت سے روکا جاتا ہے اور اللہ تعالی کے واسطے اپنی خواہشوں اور لذتوں کو قربان کیا جاتا ہے ، اس لیے اللہ تعالی نے اس کا ثواب بھی سب سے نرالا اور بہت زیادہ رکھا ہے۔
ایک حدیث میں ہے:
’’بندوں کے سارے نیک اعمال کی جزا کا ایک قانون مقرر ہے اور ہر عمل کا ثواب اسی مقررہ حساب سے دیا جائے گالیکن روزہ اس عام قانون سے مستثنی ہے ۔ اس کے متعلق اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ بندہ روزے میں میرے لئے اپنا کھانا پینا اور اپنے نفس کی شہوت کو قربان کرتا ہے اس لیے روزہ کی جزا بندہ کو میں خود
ایک دوسر ی حدیث میں ہے:
’’ جو شخص پورے ایمان و یقین کے ساتھ اور اللہ کی رضا مندی حاصل کرنے کے لئے اور اس سے ثواب لینے کے لیے رمضان کے روزے رکھے تو اس کے پہلے سب گناہ معاف کردیے جائیں گے۔‘‘
ایک اور حدیث شریف میں ہے:
روزہ دار کے لیے فرحت کے دوخاص مواقع ہیں: ایک خاص فرحت اس کو افطار کے وقت اس دنیا ہی میں حاصل ہوتی ہے ۔ اور دوسری فرحت آخرت میں اللہ کے سامنے حاضری بارگاہ الہی میں باریابی کے وقت حاصل ہوگی۔‘‘
ایک اور حدیث میں وارد ہوا ہے:
’’روزہ دوزخ کی آگ سے بچانے والی ڈھال ہے اور ایک مضبوط قلعہ ہے(جو دوزخ کے عذاب سے روزہ دار کو محفوظ رکھے گا)۔‘‘
ایک اور حدیث میں وارد ہوا ہے:
’’روزے دار کے لیے خود روزہ اللہ تعالی سے سفارش کرے گا کہ میری وجہ سے اس بندے نے دن کو کھانا پینا اور خواہش نفس کا پورا کرنا چھوڑا تھا۔ (بس اس کو بخش دیا جائے اور اس کو پورا حق دیا جائے تو اللہ تعالی روزہ کی یہ سفارس قبول فرمالے گا۔‘‘
ایک حدیث شریف میں ہے:
’’ روزے دار کے منہ کی بدبو(جو بعض اوقات معدے خالی ہونے کی وجہ سے پیدا ہوجاتی ہے) اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے اچھی ہے۔‘‘
ان احادیث میں روزے کی جو خصوصیات بیان ہوئی ہیں۔ ان کے علاوہ اس کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ انسانون کو دوسرے حیوانوں سے ممتاز کرتا ہے۔۔۔ جب جی چاہا کھالیا ،جب جی میں آیا پی لیااور جب نفسانی خواہش ہوئی اپنے جوڑے سے لذت حاصل کرلی۔ یہ شان حیوانوں کی ہے اور کبھی نہ کھانا ، کبھی نہ پینا اور جوڑے سے کبھی لذت حاصل نہ کرنا یہ شان فرشتوں کی ہے ۔ پس روزہ رکھ کر انسان دوسرے حیوانوں سے ممتاز ہوتا ہے اور فرشتوں سے ایک طرح کی مناسبت اس کو حاصل ہوجاتی ہے۔
روزوں کا خاص فائدہ
روزے کاایک خاص فائدہ یہ ہے کہ اس کی وجہ سے آدمی میں تقوی اور پرہیز گاری کی صفات پیدا ہوتی ہے اور اپنی نفسانی خواہشات پر قابو پانے کی طاقت آتی ہے اور اللہ کے حکم کہ مقابلہ میں اپنے نفس کی خواہش اور جی کی چاہت کو دبانے کی عادت پڑتی ہے اور روح کی ترقی اور تربیت ہوتی ہے۔
لیکن یہ سب باتیں جب حاصل ہوسکتی ہیں کہ روزہ رکھنے والا خود بھی ان کے حاصل کرنے کا ارادہ رکھے اور روزے میں ان تمام باتوں کا لحاظ رہے جن کی ہدایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے ۔ یعنی کھانے پینے کے علاوہ تمام چھوٹے بڑے گناہون سے پرہیز کرے ،نہ جھوٹ بولے ، نہ غیبت کرے ، نہ کسی سے لڑے جھگڑے ۔۔۔ الغرض روزے کے زمانہ میں تمام ظاہری اور باطنی گناہوں سے پوری طرح بچے جیسا کہ احادیث میں اس کی تاکید کی گئی ہے ۔ چناں چہ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’جب تم میں سے کسی کے روزے کا دن ہوتو چاہیئے کہ کوئی گندی اور بری بات اس کی زبان سے نہ نکلے اور وہ شور وشغب بھی نہ کرے اور اگر کوئی آدمی اس سے جھگڑا کرے اور اس کو گالیاں دے تو اس سے بس یہ کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں (اس لیے تمہاری گالیوں کے جواب میں بھی گالی نہیں دے سکتا )۔‘‘
ایک اور حدیث ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’ جو شخص روزے میں بھی غلط گوئی اور غلط کاری نہ چھوڑے ، تو اللہ کو اسکے کھانا پانی چھوڑنے کی کوئی ضرورت اور کوئی پرو ا نہیں۔‘‘
ایک اور حدیث میں ہے ،رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے فرمایا:
’’کتنے ہی ایسے روزہ دار ہوتے ہیں (جو روزہ میں بری باتوں اور برے کاموں سے پرہیز نہیں کرتے اور اسکی وجہ سے) ان کے روزوں کا حاصل بھوک پیاس کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا۔‘‘
الغرض روزے کے اثر سے روح میں پاکیزگی اور تقوی و پرہیز گاری کی صفت اور نفسانی خواہشات پر قابو پانے کی طاقت جب ہی پیدا ہوگی جب کہ کھانے پینے کی طرح دوسرے تمام چھوٹے بڑے گناہوں سے پرہیز کیا جائے اور خاص کر جھوٹ ،غیبت اور گالی گلوچ وغیرہ سے زبان کی حفاظت کی جائے۔
بہر حال اگر اس طرح کے مکمل روزے رکھے جائیں تو انشاء اللہ وہ سب فائدے حاصل ہوسکتے ہیں،جن کا اوپر ذکر کیا گیا ۔ اور ایسے روزے آدمی کو فرشتہ صفت بناسکتے ہیں۔
اللہ تعالی ہم سب کو توفیق دے کہ روزے کی حقیقت اور س کی قدر و قیمت کو سمجھیں اور اس کے ذریعہ اپنے اندر تقوی اور پرہیزگاری کی صفات پیدا کریں ۔
No comments:
Post a Comment