Thursday 1 December 2011

مسئلہ فسق یزید اور اکابر علما ءامت کتاب ”واقعہ کربلا“سے اعلان براءت



فرمان رسول صلی اﷲ علیہ وسلم
حسین رضی اﷲعنہ میرا ہے اور میں حسین رضی اﷲ عنہ کا ہوں اﷲ سے محبت رکھے جو حسین رضی اﷲعنہ سے محبت رکھے حسین رضی اﷲ عنہ ايک عظیم نواسہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ہے۔
کتاب ”واقعہ کربلا“سے اعلان براءت
بعد الحمد و الصلوة
برادران اسلام! تقربیا ايک سال ہوا کہ مورخہ 4 ستمبر1991 کو”مجلس تحقیق مسائل“ ضلع سرگودھا کا جلاس جامعہ ذوالنورین شاخ جامع سراج العلوم سرگودھا میں منعقد ہوا، جس میں علماءکرام نے متفقہ طور پر مولوی عطا اﷲ بندیالوی کی مولفہ کتاب” واقعہ کربلا اور کا پس منظر“ کے بعض مندرجات کو اہل سنت والجماعت اور اکابر علماءدیوبند کے نظریات وعقائد کے خلاف قرار ديتے ہوئے اس کتاب سے برات والا تعلقی کا اظہار کیا تھا اور اس کو علماءدیوبند کی دینی تحقیق کو پائے مال کرنے کی سعی ناکام قرار دیا تھا، جس پر ”مجلس تحقیق مسائل“ کے علاوہ بعض دوسرے کابر علماءکرام حضرت مولانا قاری شہاب الدین صاحب، مولانا حافظ محمد اکرم صاحب طوفانی، مولانا مفتی احمد شفیع صاحب مرحوم خطیب مرکزی جامع مسجد بلاک نمبر1سرگودھا سابق صدر بزم قاسمی وغیرہ کے دستخط بھی ثبت تھے۔
اس فیصلہ میں کتاب مذکور سے اپنی لاتعلقی کا اظہار تو کیا گیا مگر کسی پر ذاتی حملہ اورطعن و تشنیع سے مکمل طور پر پرہیز کیا گیا تھا ، کیونکہ اس کا مقصد اکابر علماءدیوبند کا تحفظ اور مسلک اہل سنت والجماعت کی ترجمانی تھا، تا کہ غلط فہمی سے اس کتاب کو علماءدیوبند کے مسلک کے موافق اور اس کا ترجمان نہ سمجھ لیا جائے ۔
بندیالوی صاحب کا سوقیانہ انداز تخاطب
اب معلوم ہوا کہ بندیالوی صاحب مذکور نے کتاب میں کچھ اضافات کيے ہیں اور ان میں اپنے جارحانہ اور غیر عالمانہ طرز تحریر سے علماءکرام کو طعن وتشنیع بلکہ رافضیانہ طریقہ پرسب وشتم اور تبراءسے بھی نوازا ہے ، لکھا ہے۔
ان مخالفین میں .... شیعہ کم تھے لیکن سنی نما شیعہ زیادہ تھے.... ان میں ان پڑھ اور عقل وخرد سے محروم واعظ بھی تھے .... یتیم العقل مفتی بھی .... فہم وفراست سے نہایت کورے خطیب بھی اور منبرو محراب کے مذہبی منافق بھی .... لوگوں کے نذرانوی پر پلنے والے.... اور تقدس کے نام پرعصمتوں سے کھیلنے والے گدی نشین بھی “(ص15)
اس سوقیانہ انداز تخاطب کا جواب توکئی اس جیسا ہی عقل و خرد اور علم وفہم کا مالک دے سکتا ہے ہم صرف اتنا ہی کہتے ہیں اور اس غیر شریفانہ انداز گفتگو کی مذمت کرتے ہیں۔
صفحہ نمبر18 پر لکھا ہے :” میری تصنیف کا مرکزی عنوان یزید کی صفائی پیش کرنا یا تعریف وتوصیف کرنا نہیں تھا....“ مگر کتاب میں مستقل عنوان ” کیا یزیدواقعی فاسق وفاجر تھا “ کے تحت خوب خوب صفائی پیش کی گئی ہے لکھاہے۔:”شیعہ پروپیگنڈے سے متاثر اہل سنت کا ےہ عالم ہے کہ وہ آنکھیں بند کر کے یزید کے فسق و فجور پر ایمان رکھتے ہیں “ (ص85)
آگے صفحہ نمبر87 پر لکھا ہے۔” آج اگر کوئی منچلا چالاکی اور ہشیاری سے کام لیتے ہوئے یوں کہے کہ یزید والی عہد بنائے جانے کے وقت نیک وصالح تھا مگر حضرت معاويہ رضی اﷲ عنہ کی وفات کے بعد اس کا فسق وفجور ظاہر ہوا تو ہمارا پھر سوال ہے کہ ان صحابہ کرام کے بارہ میں تمہارے تصورات وخیالات کیا ہیں جنہوں نے وفات معاويہ رضی اﷲ عنہ کے بعد یزید کو بحیثیت خلیفہ المسلمین تسلیم کیا، اس کے ہاتھ پر بیعت خلافت کی اور ہر لحاظ سے اس کا ساتھ دیا “۔
ناظرین غور فرمائیں بندیالوی صاحب کا يہ مرکزی عنوان یزید کی صفائی پیش کرنا یا تعریف و توصیف نہیں تھا؟ اس عنوان کے تحت مندرجات سے کیا یزید کی صفائی پیش کرنا مقصد نہیں ہے ؟ پھر اس پر بھی غور کےجئے کہ حضرت معاويہ رضی اﷲ عنہ کو ولی عہدی کے اعتراض سے بچانے کی غرض سے کن علماءکرام نے ےہ کہا جن کو يہ ” منچلا، چالاکی اور ہوشیاری سے کام لیتے ہوئے “ تبرا کر رہا ہے، يہ سننے کی بات ہے اور اس منچلے ، چالاک وہوشیار کی چالاکی و ہوشیاری کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ کیسے کیسے اکابر علماءکرام کو کس کس طرح رافضیانہ انداز سے تبرا کر رہا ہے، سنيے:
(1) حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اﷲ بانی دار العلوم دیوبند فرماتے ہیں:
” تاوقتیکہ امیر معاويہ رضی اﷲ عنہ یزید پلید راولی عہد خود کردند فاسق معلن نہ بود اگر چیزے کر دبا باشددر پردہ کہ دہ باشد کہ حضرت امیر معاويہ راازاں خبر نہ بود
جس وقت حضرت امیر معاويہ رضی اﷲ عنہ نے یزیدپلید کو اپنا ولی عہد کیا تھا اس کا فسق ظاہر نہ تھا اگرکچھ کیا ہوگا تو در پردہ، جس کی خبر امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کو نہ تھی ۔(از مکتوبات شیخ الاسلام ج1ص252)
بندیالوی صاحب کی خیانت
(2)حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اﷲ کی تحریر سے بندیالوی صاحب نے عوام کو دھوکہ دیا اور حضرت مدنی رحمہ اﷲ کی یہ عبارت بندیالوی صاحب نے اپنے دعوی کے اثبات کےلئے لکھی ہے کہ :
یزید کو متعدد معارک جہاد میں بھیجنے اور جزائر بیض اور بلاد ہائے ایشیائے کو چک کے فتح کرنے حتی خود استنبول (قسطنطنیہ) پر بڑی بڑی افواج سے حملہ کرنے وغیرہ میں آذمایا جاچکا تھا ،تاریخ شاہد ہے کہ معارک عظیمہ میں یزید ن کارہائے نمایاں انجام ديے تھے“ (مکتوبات ج 1ص250)
اس کے آگے ساتھ ہی حضرت مدنی رحمہ اﷲ نے لکھا ہے۔
اس فسق وفجور کا اعلانیہ ظہور ان کے سامنے نہ وہواتھا اور خفیہ جو بداعمالیاں وہ کرتا تھااس کی ان کو اطلاع نہ تھی “ (صفحہ مذکور) یہ اگلی عبارت ریسرچ کا حق ادا کرنے اور یزید کی صفائی کےلئے بندیالوی صاحب نے نہیں لکھی رونہ ان کی تحقیق کا بھانڈ چورا ہے میں سب کے سامنے پھوٹ جاتا۔
(3) حضرت مدنی رحمہ اﷲ مزید اراشاد فرماتے ہیں:
خلاصہ کلام یہ ہے کہ مورخین میں سے ان لوگوں کا قول کہ حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ کے زمانہ حیات میں یزید معلن بالفسق تھا اور ان کو اس کی خبر تھی اور پھر انہوں نے اس کو نامزد کیا بالکل غلط ہے، ہاں ہو سکتا ہے کہ وہ اس وقت میں خفیہ طور پر فسق وفجور میں مبتلا ہو مگر ان کو اس فسق وفجور کی اطلاع نہ ہو ان کی وفات کے بعد وہ کھیل کھیلا اور جو کچھ نہ ہو نا چاہيے تھا کر بیٹھا (مکتوبات ج1ص266)
ناظرین غورفرمائیں ! کہ بقول بندیالوی صاحب کیا يہ سب اکابر علماءکرام مولانا محمد قاسم نانوتوی اور مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہم اﷲ منچلے پن، چالاکی اور ہوشیاری سے کام لے رہے ہیں اور کیا يہ بندیالوی ان حضرات کو ہی گستاخانہ انداز میں خطاب کر رہا ہے اور ان ہی مو منچلا، چالاکی اور ہوشیاری سے کام لینے والا کہہ رہا ہے۔ کیا یہ سب حضرات شیعہ پروپیگنڈے سے متاثر تھے ؟ اور سب ہی آنکھیں بند کر کے یزید کے فسق وفجور پر ایمان لے آئے تھے؟
سیدنا حسین رضی اﷲ عنہ کا یزید کے مقابلہ میں نکلنا
حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کے یزید کے مقابلے میں نکلنے کی وجہ اس کا فسق تھا ؟ جبکہ واقعہ يہ ہے کہ حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کے دور میں ہی یزید کا فسق ظاہر ہو گیاتھا اور اسی فسق کی وجہ سے ہی حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کی يہ رائے تھی کہ اس کے مقابلہ میں نکلنا متعین ہوگیا، چنانچہ علامہ ابن خلدون جو مورخ ہونے کے ساتھ ساتھ بڑے فاضل محقق بھی ہیں لکھتے ہیں:
” لما ظہر فسق یزید عن دالکافة من اہل عصرہ بعثت شیعة اہل البیت بالکوفة للحسین رضی اﷲ عنہ ان یا تیھم فیقوموا بامرہ فرای الحسین ان الخروج علی یزید متعین من اجل فسقہ لا سیما من لہ القدرة علی ذلک وظنہا من نفسہ باھلیتہ وشوکتہ فاما الاہلیة فکانت کما ظن وزیادة واما الوش کة فغلط یرحمہ اﷲ فیھا“ (ج1 ص216)
ترجمہ:جب اس دور کے تمام لوگوں کے نزديک یزید فسق ظاہر ہوگیا تو کوفہ سے اہل بیت کے حامی لوگوں نے آپ کے پاس پیغام بھیجا کہ وہاں تشریف لے جائیں تو وہ ان کے مقصد کو قائم کر لیں گے (اس وجہ سے) حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کی يہ رائے ہوئح کہ یزید کے فسق کی وجہ سے اس کے مقابلے میں نکلنا تو متعین ہوگیا ہے خصوصاً جبکہ آپ کو اس پر طاقت بھی حاصل ہے اور آپ نے اپنے متعلق يہ گمان گیا کہہ وہ اس کی اہلیت رکھتے ہیں اورآپ کے پاس اس کےلئے قوت وشوکت بھی ہے مگر اہلیت تو اس سے بھی زیادہ تھی جس کا آپ کو گمان تھا لیکن طاقت و شوکت کااندازہ لگانے میں آپ کی غلطی ہوگئی ۔
اگر بندیالوی صاحب ا س عبارت کو آنکھ کھول کر پڑھ لیتے تو پھر وہ اکابر علماءپر آنکھیں بند کر کے فسق یزید پر ایمان لانے کا الزام ہرگز نہ لگاتے اور ان کو معلوم وہ جاتا ہے کہ یزید کا فسق صحابہ کرام عنہم کے دور میں بھی ظاہر ہو چکا تھا اور اسی بنیاد پر حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کی یہ رائے ہوئی تھی کہ اس کے مقابلہ میں نکلنا متعین ہوگیا، اب وہ آنکھیں کھو ل کر اپنے ص88 کو پڑھیں اورمعلوم کریں کہ حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کے نزديک یزید کے مقابلہ میں نکلنے کی وجہ اور اس کا سبب اس کافسق تھا یا نہیں؟ مگر آنکھیں کھولنے کے بعد بھی شاید ان کی عقل میں یہ بات نہ آسکے’’ فانھا لا تعمی الابصار ولکن تعمی القلوب التی فی الصدور“ (القرآن)
اپنے اکابر کو اندھا لکھنا سر کے اندھے کا نہیں دل کے اندھے کا کام ہے۔
ايک شبہ کا ازالہ
بندیالوی صاحب حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کے مقابلہ کی بنا صرف اپنی اہلیت کو بتلاتے ہیں حالانکہ يہ تو دوسرے درجہ پر ہے، پہلا مرحلہ تو یہ ہے کہ یزید فاسق تھا اس کی وجہ سے اس کے خلاف اٹھنا ان کے نزدیک جائز ہوا جیسا کہ علامہ ابن خلدون نے اس کی تصریح اوپر کی عبارت میں کر دی ہے البتہ اس کے لئے اہلیت اور قوت و شوکت کی بھی شرط اور ضرورت تھی، اب معاملہ کو خلط ملط کرنا اور فسق یزيد کی جس کا مقابلہ میں بنیادی حیثیت حاصل ہے نفی کرنا اور صرف اہلیت پر (مقابلہ کی بنیاد رکھنا) خروج کے حقائق کو مسخ کرنا ہے، کیا اسی کا نام تحقیق ہے ؟۔
فسق یزید اکابر علماءامت کی تصریحات
صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم سے لے کر اب تک اگر فسق یزید پر اکابر علما ءامت کی تصریحات پیش کی جائیں تو ايک ضخیم کتاب بن جائے، حضرت مولانا قاضی مظہر حسین صاحب مذظلہم نے یہ خدمت خارجی فتنہ جلد دوم میں انجام دے دی ہے تفصیل کےلئے اس کو ملاحظہ کیا جائے۔
حضرت بانی دار العلوم دیوبند مولانا محمد قاسم نانوتوی اور حضرت مولانا حسین احمد مدنی کے ارشا دات فسق یزید کے معلق گذر چکے ہیں، قطب الارشاد حضرت گنگوہی یزید کے متعلق فرماتے ہیں۔
لہٰذا کافر کہنے سے احتیاط رکھے مگر فاسق بے شک تھا“ (فتاوی رشید یہ ص49)
حضرت حکیم الامت تھانوی رحمہ اﷲ بھی ايک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:
یزید فاسق تھا اور فاسق کی ولایت مختلف فیہ ہے “ ( امداد الفتاوی ج4ص465)
حضرت مولانا ظفر احمد المحدث عثمانی رحمہ اﷲ فرماتے ہیں:
حضرت امام کو روایتیں ایسی پہنچی تھیں جس سے یزید کا فاسق ہونا لازم آتا ہے اور فاسق ہونے کے بعد خلیفہ معزول ہوجاتا ہے یا مستحق عزل ہوجاتا ہے پس امام کا یزید کے خلاف خروج کرنا بالکل صحيح تھا“(ص72)
ان سب حضرات نے یزید کو فاسق قرار دیا ہے اور امام حسین رضی اﷲ عنہ کے مقابلہ کی بنا فسق یزید بتلائی مگر بندیالوی صاحب اس کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ ان سب کے خلاف کہتے ہیں کہ حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کا یزید کے خلاف خروج فسق کی وجہ سے نہ تھا ۔
مزید تفصیل کے لئے پڑھئيے۔
کتاب
مسئلہ فسق یزید اور اکابر علماءامت
مولفہ: فقیہ العصر حضرت مولانا مفتی سید عبد الشکور ترمذی نور اﷲ مرقدہ
بانی جامعہ حقانیہ ساہیوال سرگودھا

No comments:

Post a Comment