Monday 5 December 2011

عاشوراء ميں شيعہ جو ماتم و سينہ كوبى كرتے ہيں..........

اور
اپنے آپ كو زنجيروں اور چھرياں وغيرہ مارتے ہيں، اور تلواروں كے ساتھ اپنے سر زخمى كرتے اور خون نكالتے ہيں دين اسلام ميں اس كى كوئى اصل نہيں ملتى،
بلكہ يہ اسلامى تعليمات كے منافى ہے.
اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايسا كرنے سے منع فرمايا ہے،
اور
پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى امت كے ليے ايسى كوئى چيز مشروع نہيں فرمائى اور نہ ہى اس ماتم كے قريب بھى كچھ مشروع كيا ہے كہ اگر كوئى عظيم مقام و رتبہ والا شخص فوت ہو جائى يا كوئى دوسرى شہيد ہو تو اس كے ماتم ميں ايسى خرافات كى جائيں. نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى زندگى ميں كئى ايك كبار صحابہ كرام كى شہادت ہوئى اور آپ صلى اللہ عليہ وسلم ان كى موت پر غمزدہ بھى ہوئے مثلا حمزہ بن عبد المطلب اور زيد بن حارثہ اور جعفر بن ابى طالب اور عبد اللہ بن رواحہ ليكن اس كے باوجود نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايسا كوئى عمل نہيں كيا جو شيعہ حضرات كرتے ہيں، اور اگر يہ كام خير و بھلائى ہوتى تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اس ميں ہم سے سبقت لے جاتے. اور پھر يعقوب عليہ السلام نے سينہ كوبى نہيں كى، اور نہ ہى اپنے چہرے كو زخمى كيا، اور نہ خون بہايا، اور نہ ہى اس دن كو جس ميں يوسف عليہ السلام گم ہوئے تھے تہوار بنايا اور نہ ہى اس روز كو ماتم كے ليے مختص كيا، بلكہ وہ تو اپنے پيارے اور عزيز بيٹے كو ياد كرتے اور اس كى دورى سے پريشان و غمزدہ ہوتے تھے، اور يہ ايسى چيز ہے جس كا كوئى بھى انكار نہيں كر سكتا اور كوئى بھى روك نہيں سكتا، بلكہ ممانعت و برائى تو اس ميں ہے جو جاہليت كے امور بطور وراثت لے كر اپنائے جائيں جن سے اسلام نے منع كر ديا ہو. بخارى و مسلم ميں عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: " جس نے بھى رخسار پيٹے اور گريبان چاك كيا اور جاہليت كى آوازيں لگائيں وہ ہم ميں سے نہيں " صحيح بخارى حديث نمبر ( 1294 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 103 ). چنانچہ يوم عاشوراء كے دن شيعہ حضرات جو غلط كام كرتے ہيں اس كى دين اسلام ميں كوئى دليل نہيں ملتى، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے صحابہ ميں سے كسى ايك كو بھى اس كى تعليم نہيں دى، اور نہ ہى كسى صحابى يا كسى دوسرے كى موت پر ايسے اعمال كيے، اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى موت پر صحابہ كرام نے بھى ايسا نہيں حالانكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى موت كى مصيبت تو حسين رضى اللہ تعالى كى موت سے بھى زيادہ ہے. حافظ ابن كثير رحمہ اللہ كہتے ہيں: " ہر مسلمان كو چاہيے كہ حسين رضى اللہ تعالى عنہ كے قتل ہونے پر غمزدہ ہونا چاہيے كيونكہ حسين رضى اللہ تعالى عنہ مسلمانوں كے سردار اور علماء صحابہ كرام ميں سے تھے اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے نواسے اور آپ كى اس بيٹى كى اولاد ميں سے جو سب بيٹيوں سے افضل تھى، اور پھر حسين رضى اللہ تعالى عنہ عابد و زاہد اور سخى و شجاعت و بہادرى كا وصف ركھتے تھے. ليكن شيعہ حضرات جو كچھ كرتے ہيں اور جزع و فزع اور غم كا اظہار جس ميں اكثر طور پر تصنع و بناوٹ اور رياء ہوتى ہے ان كا يہ عمل اچھا نہيں، حالانكہ حسين رضى اللہ تعالى عنہ كے والد على رضى اللہ تعالى عنہ تو حسين سے افضل تھے انہيں شہيد كيا گيا ليكن وہ اس كے قتل ہونے پر ماتم نہيں كرتے جس طرح وہ حسين رضى اللہ تعالى عنہ كے قتل ہونے والے دن ماتم كرتے ہيں. كيونكہ حسين رضى اللہ تعالى عنہ كے والد على رضى اللہ تعالى عنہ كو چاليس ہجرى سترہ رمضان المبارك جمعہ كے روز اس وقت قتل كيا گيا جب وہ نماز فجر كى ادائيگى كے ليے جا رہے تھے، اور اسى طرح اہل سنت كے ہاں عثمان رضى اللہ تعالى عنہ على رضى اللہ تعالى عنہ سے افضل ہيں انہيں محاصرہ كر كے ان كے گھر ميں چھتيس ہجرى ماہ ذوالحجہ كے ايام تشريق ميں شہيد كيا گيا، اور انہيں رگ رگ كاٹ كر ذبح كيا گيا، ليكن لوگوں نے ان كے قتل كے دن كو ماتم نہيں بنايا. اور اسى طرح عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ جو كہ عثمان اور على رضى اللہ تعالى عنہما سے افضل ہيں انہيں نماز فجر پڑھاتے ہوئے محراب ميں قرآن مجيد كى تلاوت كرتے ہوئے شہيد كيا گيا ليكن لوگوں نے ان كى موت كے دن كو ماتم كا دن نہيں بنايا. اور اسى طرح ابو بكر صديق رضى اللہ تعالى عنہ ان سے افضل تھے اور لوگوں نے ان كى موت كے دن كو ماتم والا دن نہيں بنايا، اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم تو دنيا و آخرت ميں اولاد آدم كے سردار ہيں آپ كو بھى اسى طرح قبض كيا گيا اور فوت كيا گيا جس طرح پہلے انبياء كو فوت كيا گيا، ليكن كسى ايك نے بھى ان كى موت كو ماتم نہيں بنايا، اور وہ ان رافضى جاہلوں كى طرح كريں جس طرح وہ حسين رضى اللہ تعالى عنہ كے قتل ہونے كے دن خرافات كرتے ہيں... اس طرح كى مصيبتوں كے وقت سب سے بہتر وہى عمل ہے جو حسين رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے انہوں نے اپنے نانا رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے روايت كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: " جس كسى مسلمان كو بھى كوئى مصيبت پہنچى ہو اور وہ مصيبت ياد آئے چاہے وہ پرانى ہى ہو چكى ہو تو وہ نئے سرے سے دوبارہ انا للہ و انا اليہ راجعون پڑھے تو اللہ تعالى اسے اس مصيبت كے پہنچنے والے دن جتنا ہى اجر و ثواب عطا كرتا ہے " اسے امام احمد اور ابن ماجہ نے روايت كيا ہے " انتہى ديكھيں: البدايۃ والنھايۃ ( 8 / 221 ). اور ايك مقام پر لكھتے ہيں: " چوتھى صدى ہجرى كے آس پاس بنو بويہ كے دور حكومت ميں رافضى شيعہ حضرات اسراف كا شكار ہوئے اور بغداد وغيرہ ميں يوم عاشوراء كے موقع پر ڈھول پيٹے جاتے اور راستوں اور بازاروں ميں ريت وغيرہ پھيلا دى جاتى اور دكانوں پر ٹاٹ لٹكا ديے جاتے، اور لوگ غم و حزن كا اظہار كرتے اور روتے، اور ان ميں سے اكثر لوگ اس رات پانى نہيں پيتے تھے تا كہ حسين رضى اللہ تعالى عنہ كى موافقت ہو؛ كيونكہ وہ پياسے قتل ہوئے تھے. پھر عورتيں چہرے ننگے كر كے نكلتيں اور اپنے رخسار پيٹتيں اور سينہ كوبى كرتيں ہوئى بازاروں سے ننگے پاؤں گزرتيں اور اسكے علاوہ بھى كئى ايك قبيح قسم كى بدعات اور شنيع خواہشات اور اپنى جانب سے ايجاد كردہ تباہ كن اعمال كرتے، اور اس سے وہ حكومت بنو اميہ كو برا قرار ديتے كيونكہ حسين رضى اللہ تعالى عنہ ان كے دور حكومت ميں قتل ہوئے تھے. ليكن اہل شام كے نواصب نے شيعہ و رافضيوں كے برعكس كام كيا، وہ يوم عاشوراء ميں دانے پكا كر تقسيم كرتے اور غسل كر كے خوشبو لگا كر بہترين قسم كا لباس زيب تن كرتے اور اس دن كو تہوار اور عيد بنا ليتے اور مختلف قسم كے كھانے تيار كر كے خوشى و سرور كا اظہار كرتے، ان كا مقصد رافضيوں كى مخالفت اور ان سے عناد ظاہر كرنا تھا " انتہى ديكھيں: البدايۃ والنھايۃ ( 8 / 220 ). جس طرح اس دن ماتم كرنا بدعت ہے اسى طرح اس دن خوشى و سرور ظاہر كرنا اور جشن منانا بھى بدعت ہے، اسى ليے شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں: " حسين رضى اللہ تعالى عنہ كى شہادت كے سبب ميں شيطان نے لوگوں ميں دو قسم كى بدعات ايجاد كروائيں ايك تو يوم عاشوراء كے دن ماتم كرنا اور غم و حزن كا اظہار اور سينہ كوبى كرنا اور مرثيے پڑھنا... اور دوسرى بدعت خوشى و سرور كا اظہار كرنا... ان لوگوں نے غم و حزن اور ماتم ايجاد كيا اور دوسروں نے اس كے مقابلہ ميں خوشى و سرور كى ايجاد كى اور اس طرح وہ يوم عاشوراء كو سرمہ ڈالنااور غسل كرنا اور اہل و عيال كو زيادہ كھلانا پلانا اور عادت سے ہٹ كر انواع و اقسام كے كھانا تياركرنا جيسى بدعت ايجاد كر لى، اور ہر بدعت گمراہى ہے آئمہ اربعہ وغيرہ دوسرے مسلمان علماء نے نہ تو اسے اور نہ ہى اس كو مستحب قرار ديا ہے " انتہى ماخوذ از: منھاج السنۃ ( 4 / 554 ) مختصرا يہاں اس پر متنبہ رہنا چاہيے كہ ان غلط قسم كے اعمال كى پشت پناہى دشمنان اسلام كرتے ہيں تا كہ وہ اپنے گندے مقاصد تك پہنچ سكيں اور اسلام اور مسلمانوں كى صورت كو مسخ كركے دنيا ميں پيش كريں، اسى سلسلہ ميں موسى الموسوى اپنى كتاب " الشيعۃ و التصحيح " ميں لكھتے ہيں: " ليكن اس ميں كوئى شك و شبہ نہيں كہ حسين رضى اللہ تعالى عنہ كى شہادت كے سوگ ميں دس محرم كے دن سينہ كوبى كرنا اور سروں پر تلواريں مار كر سر زخمى كرنا اور زنجير زنى كرنا ہندوستان سے انگريز دور حكومت كے وقت ايران اور عراق ميں داخل ہوا، اور انگريزوں نے شيعہ كى جہالت اور امام حسين رضى اللہ تعالى عنہ سے محبت كو موقع غنيمت جانتے ہوئے انہيں سروں پر بيرنگ مارنے كى تعليم دى، حتى كہ ابھى قريب تك طہران اور بغداد ميں برطانوى سفارت خانے ان حسينى قافلوں كى مالى مدد كيا كرتے تھے جو اس دن سڑكوں پر نكالنے جاتے، اس كے پيچھے غرض صرف سياسى اور انگريزى استعمار و غلبہ تھا تا كہ وہ اس كو بڑھا كر اس كى آبيارى كريں، اور اس سے بھى بڑھ كر يہ كہ وہ اپنے معاشرے اور آزاد ميڈيا كے سامنے ايك معقول بہانا مہيا كرنا چاہتے تھے جو برطانيہ كا ہندوستان اور دوسرے اسلامى ملكوں ميں قبضہ كى مخالفت كرتے تھے. اور وہ يہ ظاہر كرنا چاہتے تھے كہ ان ممالك ميں بسنے والے وحشى ہيں جو تربيت كے محتاج ہيں كہ انہيں جہالت اور وحشيوں كى وادى سے نكال كر ترقى يافتہ معاشرہ بنايا جائے، اس طرح يورپى اور انگريزي روزناموں اور ميگزينوں ميں تصاوير شائع كى جاتيں كہ ہزاروں افراد كے قافلے عاشوراء كے موقع پر زنجير زنى سے ماتم كر كے بازاروں ميں گھوم رہے ہيں اور سروں پر تلوار اور بيرنگ سے خون نكالا گيا ہے. اس طرح يہ استعمارى تھنك ٹينك ان ممالك ميں قبضہ اور استعمار كو ايك انسانى واجب بنا كر پيش كرتے، اور كہتے كہ ان ممالك كى يہ ثقافت ہے اس ليے اسے ترقى كى ضرورت ہے اور كہا جاتا ہے كہ انگريز قبضہ كے وقت عراق كے وزير اعظم " ياسين ہاشمى " نے جب لندن كا دورہ كيا اور انگريزوں سے وائسرائے كے نظام كو ختم كرنے كا كہا تو انگريز كہنا لگا: ہم عراق ميں عراقى لوگوں كى مدد كے ليے ہيں تا كہ وہ سعادت حاصل كريں اور بربريت سے نكلنے كى نعمت حاصل كر سكيں تو اس بات سے " ياسين ہاشمى " غصہ ميں آيا اور ناراض ہو كر مذاكرات كے كمرہ سے نكل آيا، ليكن انگريز نے بڑى چالاكى دكھاتے ہوئے اس سے معذرت كى اور بڑے احترام سے اسے عراق كے متعلق ايك فلم ديكھنے كى درخواست كى جس ميں حسينى قافلے نجف و كربلاء اور كاظميہ كى سڑكوں پر سينہ كوبى اور زنجير زنى كرتے ہوئے دكھايا گيا تھا، گويا كہ انگريز اسے يہ كہنا چاہتے تھے: كيا يہ قوم اتنى ہى گرى ہوئى ہے جس ميں ذرا بھى ترقى كى رمق نہيں جو اپنے ساتھ يہ سلوك كر رہى ہے ؟! " انتہى

واللہ اعلم .


Thursday 1 December 2011

کہہ دو غم حسین منانے والوں کو،

کہہ دو غم حسین منانے والوں کو،

کہ مسلمان کبھی شھیدوں کا غم نھیں مناتے
،وہ تو ھیں نواساۓ رسول،
ھم انکا ماتم نھیں مناتے،
کرتے ھیں محبت اپنی جان سے زیادہ آل رسول سے
یوں سر عام انکا تماشہ نھیں بناتے

محرم کے روزے کی فضیلت


سیدنا ابن عباس ۰رضی اللہ عنہما۰ سے روایت ہے، رسول اللہ ۰صلے اللہ علیہ وسلم۰ نے فرمایا؛

اگر میں آئندہ سال تک زندہ رہا تو 9 محرم کا روزہ ۰بھی۰ ضرور رکھوں گا

صحیح مسلم، کتاب الصیام باب ای یوم یصام فی عاشوراء، رقم؛1133

سیدنا ابوہریرہ ۰رضی اللہ عنہُ۰ فرماتے ہیں، رسول اللہ ۰صلے اللہ علیہ وسلم۰ نے ارشاد فرمایا؛

رمضان کے مہینہ کے بعد افضل روزہ، اللہ کے مہینے محرم کا روزہ ہے۔

سنن ترمذی۔ کتاب الصیام باب فضل صوم المحرم، رقم؛740۔

البانی رحمہ اللہ نے اسے ۰صحیح۰ کہا ہے۔

نوٹ؛
رمضان کے بعد 9،10 محرم کا روزہ رکھنا افضل ہے


نفلی روزوں کی اہمیت، محرم الحرام میں روزہ کی اہمیت



ابوقتادہ انصاری ۰رضی اللہ عنہُ۰ روایت کرتے ہیں کہ نبی ۰صلے اللہ علیہ وسلم۰ سے عرفہ کے دن کے روزہ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا؛

۰یہ روزہ۰ گزشتہ اور آئندہ سال کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔
...
اور عاشوراء کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا؛

یہ گزشتہ سال کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔

اور سوموار کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں پوچھا گیا، تو آپ نے فرمایا؛

اسی دن میں پیدا ہوا، اور اسے دن مجھے نبوت ملی، اور اسی روز میرے اوپر قرآن نازل ہوا۔

مسلم؛ الصیام

٭ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا! اے لوگو



٭ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا! اے لوگو اﷲ سے بھت ڈرو میرے دنیا سے چلے جانے کے بعد(دو مرتبہ یہ جملہ ارشاد فرمایا) پہر فرمایا ! میرے صحابہ کو لعن طعن کا نشانہ نہ بناو یاد رکھو جو میرے صحابہ سے محبت رکھے گا در حقیقت اسکو میری محبت کیوجہ سے ان سے محبت ہوگی اور جو ان سے بغض رکھے گا در حقیقت میرے بغض کیوجہ سے ان سے بغض ہوگا۔جو میرے صحابہ کو اذیت دے گا اس نے مجھے اذیت دی اور جس نے مجھے اذیت دی اس نے اﷲ کو اذیت دی اور جس نے اﷲ کو اذیت دی تو اس پر عذاب الہی نازل ہونے کا اندیشہ ہے۔(ترمذی عن عبداﷲ بن مغفلؓ)

حضرت عبداﷲ بن عمرؓ فرماتے ہیں



حضرت عبداﷲ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ

جب تم ان لوگوں کو دےکھو جو میرے صحابہؓ کو برا کہتے ہو تو تم کہو اﷲ تعالیٰ کی لعنت ہو تمہاری شر پر (ترمذی ج2 ص227و مشکوة ص554)

حضرت عویم ؓ بن ساعدہ انصاری بدری روایت کرتے ہیں کہ

تحقیق سے جناب آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ بے شک اﷲ تعالیٰ نے مجھے چنا ہے اور میرے ليے میرے صحابہ کو چنا اور انتخاب کیا ہے ان میں سے بعض کو ميرے وزیر مددگار اور سسرال بنایا ہے سو جس شخص نے ان کو برا کہا تو اس پر اﷲ تعالیٰ ملائکہ اور تمام انسانوں کی لعنت ہو اس شخص سے قیامت کے دن نہ تو نفلی عبادت قبول ہوگی اور نہ فرض۔( مستدرک ج3ص632 قال الحاکم والذہبی صحیح)

خلفاءاربعہؓ کاایمان و خلافت حدیث شر یف سے:۔

آنحضرت ﷺ نے ايک ہی مجلس میں جن دس سعادتمندوں کو(جن کو عشرہ مبشرہ کہا جاتا ہے) جنتی ہونے کی بشارت دی يہ چاروں بزرگ ان میں سرفہرست ہیں۔ حضرت عبدا لرحمن بن عوف (المتوفی32ھ) فرماتے ہیں کہ


ان النبی ﷺ قال ابو بکرؓ فی الجنة وعمر ؓ فی الجنة وعثمان ؓ فی الجنة وعلی ؓ فی الجنة الحدیث (ترمذی ج2ص216ومشکوة ج 2ص566 و الجامع الصغیر ج1ص6 وقال صحیح واسراج المنیر ج1ص27وقال حدیث صحیح ورواہ ابن ماجة ص13 عند سعید ؓبن زید)

تحقیق سے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ابوبکر عمر عثمان اور علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہم جنت میں جائیں گے (بقیہ حضرات کے نام يہ ہیں: حضرت طلحہ، عبدالرحمن بن عوف، سعد بن ابی وقاص، سعید بن زید اور ابو عبیدة بن الجراح رضی اﷲ تعالی عنہم)

اس صحیح حدیث سے حضرات خلفاءرابعہ ؓ کا جنتی ہونا ثابت ہے اور اسی پر اہل ایمان کا یقین ہے اورايک اور حدیث میں حضرتا خلفاءثلاثہؓ کو آنحضرت ﷺ نے جنت کی بشارت دی ہے ۔ چنانچہ حضرت ابو موسی (عبداﷲ بن قیس المتوفی52ھ) اشعریؓ فرماتے ہیں کہ میں ايک موقع پر دروازہ پر آپ کے دربان تھا کہ علی الترتیب حضرت ابوبکرؓ حضرت عمرؓ اور حضرت عثمان ؓ آئے میں نے آنحضرت ﷺ کو ان کی آمد کی اطلاع دی اور ان کے لئے آپ سے اجازت طلب کی آپﷺ نے ان تنیوں میں سے ہر ايک کے لئے اجازت دی اور ساتھ ہی جنتی ہونے کی بشارت سنائی ۔ائذن لہ ، وبشرہ بالنجة (بخاری ج1ص519، ج2ص522) ان کو اجازت دو اور جنتی ہونے کی خوشخبری سناﺅ اورحضرت عثمان ؓ کے بارے میں فرمایا۔

انکو اجازت دو اورجنتی ہونے کی خوشخبری سناﺅ ان پر مصیبت بھی آئےگی۔


نیز اﷲتعالیٰ کا فرمان ہے۔


نیز اﷲتعالیٰ کا فرمان ہے۔

لقد رضي الله عن المؤمنين إذ يبايعونك تحت الشجرة (پ26۔الفتح۔48:18)

البتہ تحقیق سے اﷲ تعالیٰ راضی ہو چکا ہے ان مومنوں سے جنہوں نے اس درخت کے نيچے تجھ سے بیعت کی۔

اس آیت کریمہ میں اﷲ تعالیٰ نے ماضی (رضی) پر دو تاکیدیں(لام اورقد) داخل فرما کر ان حضرات صحابہ کرام ؓ کو تحقیقی اور قطعی طور پر مومن کہا ہے جنہوں نے آنحضرت ﷺ کے دست مبارک پر حدیبیہ کے مقام پر درخت (کےکر) کے نيچے بیعت کی تھی جن کی تعداد پندرہ (1500)سو تھی-(بخاری ج2ص598 اور تفسیر ابن کثیرج4ص185 میں چودہ سو ہے)جن میں مہاجرین بھی تھے اور انصار بھی تھے اور ان میں حضرت ابو بکرؓ عمرؓ اور علیؓ بھی شامل تھے عثمان ؓ کو آپ نے سفیر بنا کر بھیجاتھا اور ان کو قید کر لیا گیا(وھو الصحیح راجع تفسیر ابن کثیر ج4ص186لا قصة شہادتة فان فی السند ابن اسحق۔ابن کثیر)مگر بایں ہمہ آنحضرت ﷺ نے اپنا دایاں ہاتھ مبارک حضرت عثمانؓ کا ہاتھ قرار دے کر ان کی طرف سے خود بیعت کی تھی(بخاری ج1ص523) اب اگر کوئی شخص اس بیعت الرضوان میں شریک ہونے والوں میں سے کسی ایک کو بھی کافر کہتا ہے تو وہ خود کافر ہوگا۔ کیونکہ ان ، حضرات کا مومن ہونا تو یقینی طور پر نص قطعی سے ثابت ہے اور حضرت ابوبکر کا صحابی ہونا تو قرآن کریم کی اس نص قطعی اذ یقول لصاحبہ الایة سے بھی ثابت ہے اور حضرت عائشہ ؓ کی برات کے بارے میں قرآن کریم میں دو رکوع موجود ہیں لہٰذا جو شخص حضرت ابوبکر ؓ کے صحابی ہونے کا منکر ہو یا حضرت ام المومنین عائشہؓ پر معاذ اﷲ تعالیٰ قذف کرتا ہو تو وہ یقینا کافر ہے۔علامہ ابن عابدین الشامیؒ (المتوفی1250ھ فرماتے ہیں کہ )

لا شک فی تکفیر من قذف السیدة عائشہ ؓ او انکر صحبة الصدیقؓ الخ

جس شخص نے حضرت عائشہؓ پر قذف کی یا حضرت ابوبکرؓ صدیق کے صحابی ہونے کا منکر ہو تو ا س کے کفر میں کوئی شک نہیں ہے (شامی ج4 ص294 طبع1288ھ)

حضرات صحابہ کرام ؓ کے بارے میں قرآنی فیصلہ:۔

والذين آمنوا وهاجروا وجاهدوا في سبيل الله والذين آوَوْا ونصروا أولئك هم المؤمنون حقا لهم مغفرة ورزق كريم

اور وہ لوگ جو ایمان لائے اورہجرت کی اور اﷲ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کیا اور وہ لوگ جنہوں نے مہاجرین کو جگہ دی اور ان کی مدد کی وہ لوگ وہی ہیں سچے مومن ان کے لئے بخشش ہے اور عزت کی روزی۔(پارہ10 ۔الانفال ۔ 8:74

اس آیت کريمہ میں اﷲ تعالیٰ نے حضرات صحابہ کرامؓ کے دو طبقوں کا ذکر کیا ہے کہ ايک مہاجرین اور دوسرے انصار کا اور بغیر کسی استثناء کے ان سب کو اﷲ تعالیٰ نے پکے سچے مومن کہا ہے اور ان کی مغفرت اور ان کے لئے عزت کی روزی کا وعدہ فرمایا ہے ۔ اب اگر کوئی شخص مہاجرین اور انصار میں سے کسی صحابی کو جس کا دلائل اور تاریخی شواہد سے مہاجر یا انصاری ہونا ثابت ہو چکا ہے معاذاﷲ تعالیٰ کافر۔ منافق۔مرتد اور ملحد و زندیق کہتا ہے تووہ قرآن کریم کی اس نص قطعی کا منکر اورپکا کفر ہے۔ لا شک فيہ

اگر نبی دختر بعثمان دا دولی دختر بہ عمرؓ فرستاد۔


ور فرمائیں کہ روافض کے خبیث طبقہ نے چکر کاٹ کاٹ کر حضرات شیخینؓ پر کس طرح ظالمانہ تیر چلائے ہیں اور حضرات ائمہ کرام ؒ کے ناموں کو اس سلسلہ میں کس مکارانہ طریقہ سے استعمال کیا ہے اگر حضرت ابوبکرؓ وعمرؓ اور عثمان ؓ معاذ اﷲ تعالیٰ کافر ہوتے تو حضرت علی ؓ اپنے بیٹوں کے نام ابوبکر وعمر و عثمان نہ رکھتے حالانکہ انہوں نے يہ نام رکھے۔(تذکرہ ائمہ ملا باقر مجلسی وجلاالعیون ج2ص195 اردو) اور اگر حضرت عمرؓ کافر ہوتے تو حضرت علی ؓ اپنی بیٹی ام کلثومؒ کا نکاح ان سے کیوں کراتے قاضی نوراﷲ شوستری لکھتے ہیں کہ

اگر نبی دختر بعثمان دا دولی دختر بہ عمرؓ فرستاد۔

اگر آنحضرت ﷺ نے اپنی لڑکی حضرت عثمانؓ کودی تو حضر ت علیؓ نے اپنی لڑکی حضرت عمرؓ کو دی۔ (مجالس المومنین مجلس سوم ص59طبع ایران)

حضرت علیؓ کے زبان مبارک سے شیعہ شنیعہ کی تردید



حضرت علیؓ کے زبان مبارک سے شیعہ شنیعہ کی تردید

کے لئے يہ حوالہ ایٹم بم سے کم نہیں ہے

حضرت علی ؓکاارشاد

حضرت علی ؓ نے فرمایا کہ آخر زمانہ میں ايک فرقہ نکلے گا جس کا خاص لقب ہوگا جن کو رافضی کہا جائے گا وہ ہماری جماعت میں ہونے کا دعویٰ کرے گا اور درحقیقت وہ ہماری جماعت سے نہیں ہوگا اور ان کی نشانی يہ ہوگی که وہ حضرت ابوبکرؓ اورحضرت عمرؓ کو برا کہے گے تم اس فرقہ کو جہاں پاﺅں قتل کرو کيونکہ وہ مشرک ہے۔ (کنزالعمال ج6ص81)

٭ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا!



٭ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا! اے لوگو اﷲ سے بھت ڈرو میرے دنیا سے چلے جانے کے بعد(دو مرتبہ یہ جملہ ارشاد فرمایا) پہر فرمایا ! میرے صحابہ کو لعن طعن کا نشانہ نہ بناو یاد رکھو جو میرے صحابہ سے محبت رکھے گا در حقیقت اسکو میری محبت کیوجہ سے ان سے محبت ہوگی اور جو ان سے بغض رکھے گا در حقیقت میرے بغض کیوجہ سے ان سے بغض ہوگا۔جو میرے صحابہ کو اذیت دے گا اس نے مجھے اذیت دی اور جس نے مجھے اذیت دی اس نے اﷲ کو اذیت دی اور جس نے اﷲ کو اذیت دی تو اس پر عذاب الہی نازل ہونے کا اندیشہ ہے۔(ترمذی عن عبداﷲ بن مغفلؓ)

مسئلہ فسق یزید اور اکابر علما ءامت کتاب ”واقعہ کربلا“سے اعلان براءت



فرمان رسول صلی اﷲ علیہ وسلم
حسین رضی اﷲعنہ میرا ہے اور میں حسین رضی اﷲ عنہ کا ہوں اﷲ سے محبت رکھے جو حسین رضی اﷲعنہ سے محبت رکھے حسین رضی اﷲ عنہ ايک عظیم نواسہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ہے۔
کتاب ”واقعہ کربلا“سے اعلان براءت
بعد الحمد و الصلوة
برادران اسلام! تقربیا ايک سال ہوا کہ مورخہ 4 ستمبر1991 کو”مجلس تحقیق مسائل“ ضلع سرگودھا کا جلاس جامعہ ذوالنورین شاخ جامع سراج العلوم سرگودھا میں منعقد ہوا، جس میں علماءکرام نے متفقہ طور پر مولوی عطا اﷲ بندیالوی کی مولفہ کتاب” واقعہ کربلا اور کا پس منظر“ کے بعض مندرجات کو اہل سنت والجماعت اور اکابر علماءدیوبند کے نظریات وعقائد کے خلاف قرار ديتے ہوئے اس کتاب سے برات والا تعلقی کا اظہار کیا تھا اور اس کو علماءدیوبند کی دینی تحقیق کو پائے مال کرنے کی سعی ناکام قرار دیا تھا، جس پر ”مجلس تحقیق مسائل“ کے علاوہ بعض دوسرے کابر علماءکرام حضرت مولانا قاری شہاب الدین صاحب، مولانا حافظ محمد اکرم صاحب طوفانی، مولانا مفتی احمد شفیع صاحب مرحوم خطیب مرکزی جامع مسجد بلاک نمبر1سرگودھا سابق صدر بزم قاسمی وغیرہ کے دستخط بھی ثبت تھے۔
اس فیصلہ میں کتاب مذکور سے اپنی لاتعلقی کا اظہار تو کیا گیا مگر کسی پر ذاتی حملہ اورطعن و تشنیع سے مکمل طور پر پرہیز کیا گیا تھا ، کیونکہ اس کا مقصد اکابر علماءدیوبند کا تحفظ اور مسلک اہل سنت والجماعت کی ترجمانی تھا، تا کہ غلط فہمی سے اس کتاب کو علماءدیوبند کے مسلک کے موافق اور اس کا ترجمان نہ سمجھ لیا جائے ۔
بندیالوی صاحب کا سوقیانہ انداز تخاطب
اب معلوم ہوا کہ بندیالوی صاحب مذکور نے کتاب میں کچھ اضافات کيے ہیں اور ان میں اپنے جارحانہ اور غیر عالمانہ طرز تحریر سے علماءکرام کو طعن وتشنیع بلکہ رافضیانہ طریقہ پرسب وشتم اور تبراءسے بھی نوازا ہے ، لکھا ہے۔
ان مخالفین میں .... شیعہ کم تھے لیکن سنی نما شیعہ زیادہ تھے.... ان میں ان پڑھ اور عقل وخرد سے محروم واعظ بھی تھے .... یتیم العقل مفتی بھی .... فہم وفراست سے نہایت کورے خطیب بھی اور منبرو محراب کے مذہبی منافق بھی .... لوگوں کے نذرانوی پر پلنے والے.... اور تقدس کے نام پرعصمتوں سے کھیلنے والے گدی نشین بھی “(ص15)
اس سوقیانہ انداز تخاطب کا جواب توکئی اس جیسا ہی عقل و خرد اور علم وفہم کا مالک دے سکتا ہے ہم صرف اتنا ہی کہتے ہیں اور اس غیر شریفانہ انداز گفتگو کی مذمت کرتے ہیں۔
صفحہ نمبر18 پر لکھا ہے :” میری تصنیف کا مرکزی عنوان یزید کی صفائی پیش کرنا یا تعریف وتوصیف کرنا نہیں تھا....“ مگر کتاب میں مستقل عنوان ” کیا یزیدواقعی فاسق وفاجر تھا “ کے تحت خوب خوب صفائی پیش کی گئی ہے لکھاہے۔:”شیعہ پروپیگنڈے سے متاثر اہل سنت کا ےہ عالم ہے کہ وہ آنکھیں بند کر کے یزید کے فسق و فجور پر ایمان رکھتے ہیں “ (ص85)
آگے صفحہ نمبر87 پر لکھا ہے۔” آج اگر کوئی منچلا چالاکی اور ہشیاری سے کام لیتے ہوئے یوں کہے کہ یزید والی عہد بنائے جانے کے وقت نیک وصالح تھا مگر حضرت معاويہ رضی اﷲ عنہ کی وفات کے بعد اس کا فسق وفجور ظاہر ہوا تو ہمارا پھر سوال ہے کہ ان صحابہ کرام کے بارہ میں تمہارے تصورات وخیالات کیا ہیں جنہوں نے وفات معاويہ رضی اﷲ عنہ کے بعد یزید کو بحیثیت خلیفہ المسلمین تسلیم کیا، اس کے ہاتھ پر بیعت خلافت کی اور ہر لحاظ سے اس کا ساتھ دیا “۔
ناظرین غور فرمائیں بندیالوی صاحب کا يہ مرکزی عنوان یزید کی صفائی پیش کرنا یا تعریف و توصیف نہیں تھا؟ اس عنوان کے تحت مندرجات سے کیا یزید کی صفائی پیش کرنا مقصد نہیں ہے ؟ پھر اس پر بھی غور کےجئے کہ حضرت معاويہ رضی اﷲ عنہ کو ولی عہدی کے اعتراض سے بچانے کی غرض سے کن علماءکرام نے ےہ کہا جن کو يہ ” منچلا، چالاکی اور ہوشیاری سے کام لیتے ہوئے “ تبرا کر رہا ہے، يہ سننے کی بات ہے اور اس منچلے ، چالاک وہوشیار کی چالاکی و ہوشیاری کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ کیسے کیسے اکابر علماءکرام کو کس کس طرح رافضیانہ انداز سے تبرا کر رہا ہے، سنيے:
(1) حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اﷲ بانی دار العلوم دیوبند فرماتے ہیں:
” تاوقتیکہ امیر معاويہ رضی اﷲ عنہ یزید پلید راولی عہد خود کردند فاسق معلن نہ بود اگر چیزے کر دبا باشددر پردہ کہ دہ باشد کہ حضرت امیر معاويہ راازاں خبر نہ بود
جس وقت حضرت امیر معاويہ رضی اﷲ عنہ نے یزیدپلید کو اپنا ولی عہد کیا تھا اس کا فسق ظاہر نہ تھا اگرکچھ کیا ہوگا تو در پردہ، جس کی خبر امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کو نہ تھی ۔(از مکتوبات شیخ الاسلام ج1ص252)
بندیالوی صاحب کی خیانت
(2)حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اﷲ کی تحریر سے بندیالوی صاحب نے عوام کو دھوکہ دیا اور حضرت مدنی رحمہ اﷲ کی یہ عبارت بندیالوی صاحب نے اپنے دعوی کے اثبات کےلئے لکھی ہے کہ :
یزید کو متعدد معارک جہاد میں بھیجنے اور جزائر بیض اور بلاد ہائے ایشیائے کو چک کے فتح کرنے حتی خود استنبول (قسطنطنیہ) پر بڑی بڑی افواج سے حملہ کرنے وغیرہ میں آذمایا جاچکا تھا ،تاریخ شاہد ہے کہ معارک عظیمہ میں یزید ن کارہائے نمایاں انجام ديے تھے“ (مکتوبات ج 1ص250)
اس کے آگے ساتھ ہی حضرت مدنی رحمہ اﷲ نے لکھا ہے۔
اس فسق وفجور کا اعلانیہ ظہور ان کے سامنے نہ وہواتھا اور خفیہ جو بداعمالیاں وہ کرتا تھااس کی ان کو اطلاع نہ تھی “ (صفحہ مذکور) یہ اگلی عبارت ریسرچ کا حق ادا کرنے اور یزید کی صفائی کےلئے بندیالوی صاحب نے نہیں لکھی رونہ ان کی تحقیق کا بھانڈ چورا ہے میں سب کے سامنے پھوٹ جاتا۔
(3) حضرت مدنی رحمہ اﷲ مزید اراشاد فرماتے ہیں:
خلاصہ کلام یہ ہے کہ مورخین میں سے ان لوگوں کا قول کہ حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ کے زمانہ حیات میں یزید معلن بالفسق تھا اور ان کو اس کی خبر تھی اور پھر انہوں نے اس کو نامزد کیا بالکل غلط ہے، ہاں ہو سکتا ہے کہ وہ اس وقت میں خفیہ طور پر فسق وفجور میں مبتلا ہو مگر ان کو اس فسق وفجور کی اطلاع نہ ہو ان کی وفات کے بعد وہ کھیل کھیلا اور جو کچھ نہ ہو نا چاہيے تھا کر بیٹھا (مکتوبات ج1ص266)
ناظرین غورفرمائیں ! کہ بقول بندیالوی صاحب کیا يہ سب اکابر علماءکرام مولانا محمد قاسم نانوتوی اور مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہم اﷲ منچلے پن، چالاکی اور ہوشیاری سے کام لے رہے ہیں اور کیا يہ بندیالوی ان حضرات کو ہی گستاخانہ انداز میں خطاب کر رہا ہے اور ان ہی مو منچلا، چالاکی اور ہوشیاری سے کام لینے والا کہہ رہا ہے۔ کیا یہ سب حضرات شیعہ پروپیگنڈے سے متاثر تھے ؟ اور سب ہی آنکھیں بند کر کے یزید کے فسق وفجور پر ایمان لے آئے تھے؟
سیدنا حسین رضی اﷲ عنہ کا یزید کے مقابلہ میں نکلنا
حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کے یزید کے مقابلے میں نکلنے کی وجہ اس کا فسق تھا ؟ جبکہ واقعہ يہ ہے کہ حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کے دور میں ہی یزید کا فسق ظاہر ہو گیاتھا اور اسی فسق کی وجہ سے ہی حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کی يہ رائے تھی کہ اس کے مقابلہ میں نکلنا متعین ہوگیا، چنانچہ علامہ ابن خلدون جو مورخ ہونے کے ساتھ ساتھ بڑے فاضل محقق بھی ہیں لکھتے ہیں:
” لما ظہر فسق یزید عن دالکافة من اہل عصرہ بعثت شیعة اہل البیت بالکوفة للحسین رضی اﷲ عنہ ان یا تیھم فیقوموا بامرہ فرای الحسین ان الخروج علی یزید متعین من اجل فسقہ لا سیما من لہ القدرة علی ذلک وظنہا من نفسہ باھلیتہ وشوکتہ فاما الاہلیة فکانت کما ظن وزیادة واما الوش کة فغلط یرحمہ اﷲ فیھا“ (ج1 ص216)
ترجمہ:جب اس دور کے تمام لوگوں کے نزديک یزید فسق ظاہر ہوگیا تو کوفہ سے اہل بیت کے حامی لوگوں نے آپ کے پاس پیغام بھیجا کہ وہاں تشریف لے جائیں تو وہ ان کے مقصد کو قائم کر لیں گے (اس وجہ سے) حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کی يہ رائے ہوئح کہ یزید کے فسق کی وجہ سے اس کے مقابلے میں نکلنا تو متعین ہوگیا ہے خصوصاً جبکہ آپ کو اس پر طاقت بھی حاصل ہے اور آپ نے اپنے متعلق يہ گمان گیا کہہ وہ اس کی اہلیت رکھتے ہیں اورآپ کے پاس اس کےلئے قوت وشوکت بھی ہے مگر اہلیت تو اس سے بھی زیادہ تھی جس کا آپ کو گمان تھا لیکن طاقت و شوکت کااندازہ لگانے میں آپ کی غلطی ہوگئی ۔
اگر بندیالوی صاحب ا س عبارت کو آنکھ کھول کر پڑھ لیتے تو پھر وہ اکابر علماءپر آنکھیں بند کر کے فسق یزید پر ایمان لانے کا الزام ہرگز نہ لگاتے اور ان کو معلوم وہ جاتا ہے کہ یزید کا فسق صحابہ کرام عنہم کے دور میں بھی ظاہر ہو چکا تھا اور اسی بنیاد پر حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کی یہ رائے ہوئی تھی کہ اس کے مقابلہ میں نکلنا متعین ہوگیا، اب وہ آنکھیں کھو ل کر اپنے ص88 کو پڑھیں اورمعلوم کریں کہ حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کے نزديک یزید کے مقابلہ میں نکلنے کی وجہ اور اس کا سبب اس کافسق تھا یا نہیں؟ مگر آنکھیں کھولنے کے بعد بھی شاید ان کی عقل میں یہ بات نہ آسکے’’ فانھا لا تعمی الابصار ولکن تعمی القلوب التی فی الصدور“ (القرآن)
اپنے اکابر کو اندھا لکھنا سر کے اندھے کا نہیں دل کے اندھے کا کام ہے۔
ايک شبہ کا ازالہ
بندیالوی صاحب حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کے مقابلہ کی بنا صرف اپنی اہلیت کو بتلاتے ہیں حالانکہ يہ تو دوسرے درجہ پر ہے، پہلا مرحلہ تو یہ ہے کہ یزید فاسق تھا اس کی وجہ سے اس کے خلاف اٹھنا ان کے نزدیک جائز ہوا جیسا کہ علامہ ابن خلدون نے اس کی تصریح اوپر کی عبارت میں کر دی ہے البتہ اس کے لئے اہلیت اور قوت و شوکت کی بھی شرط اور ضرورت تھی، اب معاملہ کو خلط ملط کرنا اور فسق یزيد کی جس کا مقابلہ میں بنیادی حیثیت حاصل ہے نفی کرنا اور صرف اہلیت پر (مقابلہ کی بنیاد رکھنا) خروج کے حقائق کو مسخ کرنا ہے، کیا اسی کا نام تحقیق ہے ؟۔
فسق یزید اکابر علماءامت کی تصریحات
صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم سے لے کر اب تک اگر فسق یزید پر اکابر علما ءامت کی تصریحات پیش کی جائیں تو ايک ضخیم کتاب بن جائے، حضرت مولانا قاضی مظہر حسین صاحب مذظلہم نے یہ خدمت خارجی فتنہ جلد دوم میں انجام دے دی ہے تفصیل کےلئے اس کو ملاحظہ کیا جائے۔
حضرت بانی دار العلوم دیوبند مولانا محمد قاسم نانوتوی اور حضرت مولانا حسین احمد مدنی کے ارشا دات فسق یزید کے معلق گذر چکے ہیں، قطب الارشاد حضرت گنگوہی یزید کے متعلق فرماتے ہیں۔
لہٰذا کافر کہنے سے احتیاط رکھے مگر فاسق بے شک تھا“ (فتاوی رشید یہ ص49)
حضرت حکیم الامت تھانوی رحمہ اﷲ بھی ايک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:
یزید فاسق تھا اور فاسق کی ولایت مختلف فیہ ہے “ ( امداد الفتاوی ج4ص465)
حضرت مولانا ظفر احمد المحدث عثمانی رحمہ اﷲ فرماتے ہیں:
حضرت امام کو روایتیں ایسی پہنچی تھیں جس سے یزید کا فاسق ہونا لازم آتا ہے اور فاسق ہونے کے بعد خلیفہ معزول ہوجاتا ہے یا مستحق عزل ہوجاتا ہے پس امام کا یزید کے خلاف خروج کرنا بالکل صحيح تھا“(ص72)
ان سب حضرات نے یزید کو فاسق قرار دیا ہے اور امام حسین رضی اﷲ عنہ کے مقابلہ کی بنا فسق یزید بتلائی مگر بندیالوی صاحب اس کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ ان سب کے خلاف کہتے ہیں کہ حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کا یزید کے خلاف خروج فسق کی وجہ سے نہ تھا ۔
مزید تفصیل کے لئے پڑھئيے۔
کتاب
مسئلہ فسق یزید اور اکابر علماءامت
مولفہ: فقیہ العصر حضرت مولانا مفتی سید عبد الشکور ترمذی نور اﷲ مرقدہ
بانی جامعہ حقانیہ ساہیوال سرگودھا